کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 474
مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی مع لشکر قبرص میں پہنچ گئے۔ قبرص سے فارغ ہو کر انہوں نے روڈس کا ارادہ کیا، روڈس والوں نے خوب جم کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا، کئی خون ریز معرکوں کے بعد روڈس پر بھی اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا۔ اسی جزیرہ میں ایک بہت بڑا تانبے کا بت تھا، جس کی ایک ٹانگ جزیرہ کے ساحل پر اور دوسری ٹانگ ساحل کے قریبی ٹاپوپر تھی اور ان دونوں ٹانگوں کے بیچ میں اتنی چوڑی آبنائے تھی کہ جہاز اس کے اندر ہو کر گزر جاتے تھے، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس بت کو توڑ کر اس کے تانبے کے ٹکڑے اسکندریہ والی فوج کے ہمراہ اسکندریہ روانہ کر دیئے جہاں ان کو ایک یہودی نے خرید لیا تھا، قبرص وروڈس کی فتوحات سے سیّدنا امیر معاویہ کی شہرت اور ہر دل عزیزی میں بہت بڑا اضافہ ہوا، کیونکہ ان بحری فتوحات نے مسلمانوں کے لیے قسطنطنیہ اور دوسرے ملکوں پر چڑھائی کا گویا ایک دروازہ کھول دیا تھا۔ یہ تمام واقعات ۲۸ ھ کے آخر یا ۲۹ ھ کے شروع زمانے تک کے ہیں ۔ ایران میں تغیرات انتظامی: ۲۷ھ کے ابتدائی ایام میں بصرہ والوں نے اپنے گورنر سیّدنا ابوموسیٰ اشعری کی شکایت مدینہ میں آکر خلیفہ وقت سے کی، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی حکومت سے معزول کر کے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ بن عامر بن کرزبن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس کو مقرر فرما دیا، اس وقت عبداللہ بن عامر کی عمر قریباً پچیس سال کی تھی، ان کو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے نہ صرف ابو موسیٰ اشعری کے لشکر کی بلکہ عثمان بن ابی العاص ثقفی والی عمان و بحرین کے لشکر کی بھی سرداری سپرد کی۔ عبیداللہ بن معمر خراسان کے گورنر تھے، ان کو وہاں سے خلیفہ وقت نے تبدیل کر کے فارس کے صوبہ کی گورنری تفویض کی ، اور خراسان کی حکومت پر عمیر بن عثمان بن سعد رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، عمیر بن عثمان نے خراسان پہنچتے ہی نہایت ہی مستعدی اور قوت کے ساتھ ملک کا انتظام کیا اور فرغانہ تک علاقہ پر قبضہ کر لیا، ۲۷ ھ کے شروع میں عمیر بن عثمان خراسان کی گورنری سے معزول ہوئے ان کی جگہ ابن احمر مامور ہوئے اور عبدالرحمن بن عبس کرمان کی حکومت پر مقرر کیے گئے، چند روز کے بعد کرمان کی گورنری سے عبدالرحمن معزول ہوئے اور ان کی جگہ عاصم بن عمرو مقرر ہوئے اور سجستان کی گورنری عمران بن النفیل کو دی گئی۔ اہل ایران کی بغاوت و اسلامی فتوحات: مندرجہ بالا تبدیلیاں چونکہ جلد جلد وقوع پذیر ہوئیں ، لہٰذا ایرانیوں نے انتظامی تغیرات کو اپنے لیے