کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 472
سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ افریقہ کی بشارت اور مال غنیمت کا خمس لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کیا، اس خمس کو مروان بن الحکم نے پانچ لاکھ کے عوض خرید لیا، عبداللہ بن سعد ایک برس تین مہینے کے بعد ۲۷ ھ میں افریقہ سے مصر کو واپس آئے، افریقہ والوں نے بجائے جرجیر کے اپنا ایک اور بادشاہ منتخب کر لیا اور مسلمانوں کو مقررہ جزیہ ادا کرنے لگے، افریقہ اسی ریاست یا اسی ملک کا نام سمجھنا چاہیے جس کو قرطاجنہ کا ملک کہتے تھے۔[1]
فتح قبرص و روڈس:
عبداللہ بن سعد جب علاقہ قرطاجنہ یا افریقہ سے مصر واپس چلے آئے اور اسی سال یعنی ۲۷ ھ میں ان کی جگہ عبداللہ بن نافع مصر کے گورنر مقرر ہوئے تو قسطنطین نے پھر جنگی تیاریاں شروع کیں ، ۲۸ ھ میں اس نے ایک بحری فوج افریقہ کی طرف روانہ کی، اس فوج نے ساحل افریقہ پر اتر کر اس خراج کا مطالبہ اہل افریقہ سے کیا جو وہ قیصر کو پہلے دیا کرتے تھے، اہل افریقہ نے اب قیصر کو خراج کے دینے سے انکار کیا اور کہا کہ جب ہمارے ملک پر مسلمان حملہ آور ہوئے تو قیصر ہماری کوئی امداد نہ کر سکا، لہٰذا اب اس کی سیادت تسلیم کرنا اور اس کو خراج دینا ہمارے لیے ضروری نہیں ، یہاں تک کہ اہل افریقہ اور رومی لشکر میں مقابلہ ہوا، رومیوں نے اہل افریقہ کو شکست دی اور وہاں سے اسکندریہ کی طرف بڑھے، ادھر عبداللہ بن نافع نے مدافعت اور مشہور روایت یہ ہے کہ جرجیر کی فوجوں نے مسلمانوں کو ہالہ کی طرح گھیرے میں لیا تھا اور وہ سخت پریشان تھے کہ عبداللہ بن زبیر ساری تفصیل معلوم کر کے چند ہزار مسلمان کو لیے ہوئے جرجیر کی سمت حملہ آور ہوئے اور جرجیر کو قتل کر کے اور اس کا سر کاٹ کر نیزے پر بلند کر دیا، یہ دیکھ کر جرجیر کی فوج بے تحاشا بھاگی، مسلمانوں نے تعاقب کر کے انہیں بری طرح کاٹ کر رکھ دیا۔
مقابلے کی تیاری کی، رومی سردار افریقہ کی طرف سے اسکندریہ کی طرف آیا، تو قیصر روم خود چھ سو کشتیاں لے کر اسکندریہ کے ارادے سے روانہ ہوا، دونوں طرف سے رومی لشکر اسکندریہ پر قبضہ کرنے کے لیے آ گئے ادھر سے اسلامی لشکر نے مقابلہ کیا، سخت خون ریز لڑائی ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ قسطنطین اور اس کی فوج با حال تباہ اسکندریہ سے فرار ہو کر قبرص کی طرف گئی، قبرص کو انہوں نے اپنا بحری مرکز اور جنگی سامان کا صدر مقام بنا رکھا تھا، اس کیفیت کو یہیں ملتوی چھوڑ کر سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا حال بھی اس موقع پر تھوڑا سا عرض کر دینا نہایت ضروری ہے، تاکہ سلسلہ مضمون پورے طور پر مربوط ہو سکے۔
[1] قرطاجنہ اب براعظم افریقہ کا ایک مشہور شہر ہے۔