کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 470
ساتھ مصر سے خروج کر کے علاقہ برقہ میں سرحدی رئیسوں کو مغلوب کیا، ان رئیسوں کو اپنے زمانہ حکومت میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بھی چڑھائی کر کے جزیہ کی ادائیگی پر مجبور کر چکے تھے اور بعد میں موقع پا کر وہ خود مختار ہو گئے تھے، اس لیے اب انہوں نے جزیہ کے ادا کرنے اور اپنے آپ کو محکوم تسلیم کرنے میں زیادہ چون و چرا نہیں کی۔ اس کے بعد جب عبداللہ بن سعد ملک کے درمیانی حصے اور طرابلس کی طرف بڑھنے لگے تو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ سے ایک فوج مرتب کر کے ان کی مدد کے لیے روانہ کی، اس فوج میں سیّدنا عبداللہ بن عمر، سیّدنا عبداللہ بن عباس، سیّدنا عبداللہ بن زبیر، سیّدنا عمرو بن العاص سیّدنا حسن بن علی، سیّدنا حسین بن علی، سیّدنا ابن جعفر وغیرہ رضی اللہ عنہم حضرات شامل تھے، یہ فوج مصر ہوتی ہوئی برقہ میں پہنچی تو وہاں عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے استقبال کر کے اس سے ملاقات کی، اب سب مل کر طرابلس کی طرف بڑھے، رومیوں نے طرابلس سے نکل کر مقابلہ کیا مگر شکست کھا کر بھاگے، مسلمانوں کا طرابلس پر قبضہ ہو گیا۔ طرابلس پر قبضہ مکمل کر کے خاص ریاست افریقہ کی طرف لشکر اسلام بڑھا، افریقہ کا بادشاہ جرجیر نامی قیصر کا ماتحت اور خراج گزرا تھا، اس کو جب اسلامی لشکر کے اپنی طرف متوجہ ہونے کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایک لاکھ بیس ہزار فوج جمع کر کے ایک شبانہ روز کی مسافت پر آگے بڑھ کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا، دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل پہنچ گئے تو سیّدنا عبداللہ بن سعد نے سب سے پہلے عیسائی لشکر کو اسلام کی دعوت دی، جرجیر نے اس دعوت کا صاف انکار کیا تو دوبارہ جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا، جب اس نے جزیہ ادا کرنے سے بھی صاف انکار کیا تو مسلمانوں نے صف آرائی کر کے لڑائی شروع کی، لڑائی بڑے زور شور سے شروع ہوئی، فتح و شکست کی نسبت کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی تھی کہ اتنے میں مسلمانوں کی کمک کے لیے ایک تازہ دم فوج پہنچی اور لشکر اسلام سے نعرۂ تکبیر بلند ہوا۔ اس اجمال کی تفصیل اس طرح ہے کہ بعد مسافت کے سبب اس لشکر کی خبر مدینہ منورہ میں جلد نہیں پہنچ سکتی تھی ، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لشکر افریقہ کی خبر آئے ہوئے زیادہ دن گزر گئے ہیں تو انہوں نے سیّدنا عبدالرحمن بن زبیر کو ایک دستہ فوج کے ہمراہ افریقہ کی طرف روانہ فرما دیا تھا، سیّدنا عبدالرحمن بن زبیر اپنی فوج کے ساتھ لشکر اسلام میں داخل ہو گئے، اس لیے مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ بلند کیا، جرجیر نے یہ نعرہ تکبیر سن کر دریافت کیا کہ مسلمانوں میں کیوں یہ تکبیر کا نعرہ بلند ہوا تو اس کو بتایا گیا کہ مسلمانوں کی ایک تازہ دم فوج مدد کے لیے پہنچ گئی ہے، جرجیر یہ سن کر بہت فکر مند ہوا مگر اس روز لڑائی کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا، شام ہونے پر دونوں فوجیں اپنے اپنے خیموں کی طرف متوجہ ہوئیں ۔