کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 47
مسلمانوں کا کوئی ایک ہی سلطان یا خلیفہ یا حکمران ہونا چاہیے، لیکن وہ مسلمانوں کا بہترین شخص ہو اور مسلمان اس کو کثرت رائے یا اتفاق رائے سے منتخب کریں ، کسی شخص کا کسی خلیفہ یا بادشاہ کے گھر پیدا ہونا ہرگز ہرگز اس امر کے لیے مستلزم نہیں ہے کہ وہ قابلیت حکومت بھی رکھتا ہو۔ اگر یہ وراثت والی رسم مسلمانوں کے اندر جاری نہ ہوتی اور امر سلطنت اسی طرح محفوظ رہتا جیسا کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں محفوظ رہا تو آج اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں … لیکن مشیت ایزدی نے یہی چاہا اور قضاء و قدر کے نوشتے پورے ہو کر رہے، مسلمان اگر شروع ہی سے اس کے مخالف رہتے اور امر حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے کوشش و سعی میں کمی نہ کرتے تو اگرچہ اوّل اول ان کو بڑی بڑی قربانیاں اور زیادہ محنتیں برداشت کرنی پڑتیں ، لیکن پھر کسی حکمران کو اس امرکی جرات نہ رہتی کہ وہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو حکمران منتخب کرانے اور ولی عہد بنانے کی جرات کرتا۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک سے زیادہ بیٹے اس قابل تھے کہ وہ حکمرانی کر سکیں اور امور سلطنت کو چلا سکیں ، لیکن انہوں نے سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں میں بہترین شخص پایا اور انہیں کے لیے مسلمانوں سے فرمائش اور سفارش کی، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ یقینا اس قابل تھے کہ مسلمانوں کے خلیفہ ہوں ، لیکن سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چونکہ اس رسم بد کو مٹانے اور بالکل ختم کرنے کے خواہش مند تھے، لہٰذا انہوں نے نہ اس لیے کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ناقابل خلافت تھے بلکہ صرف اس لیے کہ وراثتی حکومت کا رواج مٹ جائے خاص طور پر وصیت فرما دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہرگز خلیفہ منتخب نہ کیے جائیں ۔ لوگوں کی سب سے بڑی نادانی اور نابینائی یہ ہے کہ وہ شخصی حکومت کی برائیاں اور شخصی حکومت کے نقصانات دیکھ دیکھ کر ان برائیوں اور نقصانوں کا اصل سبب دریافت نہیں کرتے بلکہ شخصی حکومت کے عام طور پرمخالف ہو کر جمہوریت کی مدح سرائی شروع کر دیتے ہیں ، شخصی حکومتوں کی جس قدر برائیاں ہم کو نظر آتی ہیں ان سب کا اصل الاصول یہ ہے کہ شخصی حکومت نے وراثت میں دخل پا لیا ہے اور بادشاہ، یا حکمران کے انتخاب کا حق لوگوں سے چھن گیا ہے۔ پس عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم برائیوں کے اصل منبع یعنی وراثت کی رسم کو سلطنت کے معاملہ میں دخیل نہ ہونے دیں ، اور باپ کے بعد اس کے بیٹے کو اگر وہ سب سے بہتر نہیں ہے تو ہرگز اپنا حاکم نہ بننے دیں اوراگر وہی سب سے بہتر ہے تب بھی اپنے اختیار اور عامۃ المسلمین کی عام منظوری کے بعد