کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 468
سے کچھ خوش نہ تھے۔ انھی ایام میں جب کہ ولید بن عقبہ نے آذربائیجان پر چڑھائی کی، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عامل دمشق نے حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو آرمینیاء کی طرف روانہ کیا تھا اور حبیب بن مسلمہ وہاں کے اکثر شہروں اور قلعوں پرقابض ہو کر رومیوں کو جزیہ ادا کرنے پر مجبور کر چکے تھے۔ یہ خبر سن کر ایک رومی سردار قیصر قسطنطین کے حکم کے موافق ملیط، سیواس، قونیہ وغیرہ شہروں اور چھاؤنیوں سے اسی ہزار فوج لے کر براہ خلیج قسطنطنیہ حبیب بن مسلمہ پر چڑھ آیا، حبیب نے اس فوج گراں کا حال سن کر سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا، انہوں نے فوراً بلا توقف سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فوراً ولید بن عقبہ گورنر کوفہ کو لکھا کہ دس ہزار فوج حبیب بن مسلمہ کی مدد کے واسطے آرمینیاء کی طرف روانہ کر دو، یہ فرمان عثمان سیّدنا ولید بن عقبہ کو موصل میں ملا جب کہ وہ فتح آذربائیجان سے واپس کوفہ کی طرف آ رہے تھے، انہوں نے اسی وقت سلمان بن ربیعہ کو آٹھ ہزار فوج کے ساتھ آرمینیا کی جانب روانہ کر دیا۔ حبیب بن مسلمہ اور سلمان بن ربیعہ نے مل کر تمام علاقہ آرمینیاء کو فتح کر لیا اور بحر خضر کے کنارے کوہ قاف تک پہنچ گئے، وہاں سلمان بن ربیعہ شروان اور تمام علاقہ جبال کو تصرف میں لاتے ہوئے کوفہ کی طرف آئے اور حبیب بن مسلمہ سیّدنا امیر معاویہ کی خدمت میں بمقام دمشق حاضر ہوئے، اس کے بعد سیّدنا امیر معاویہ نے خود ایک جمعیت لے کر رومی علاقہ پر چڑھائی کی، رومی لشکر خوف زدہ ہو کر انطاکیہ و طرطوس کے تمام درمیانی قلعے چھوڑ کرفرار ہو گیا، سیّدنا امیر معاویہ نے انھی قلعوں میں اپنی چھاؤنیاں قائم کر کے ان میں سے بعض قلعوں کو ویران و مسمار بھی کر دیا، یہ تمام واقعات ۲۵ ھ میں وقوع پذیر ہوئے، اب آئندہ ۲۶ ھ شروع ہوتا ہے۔ مصر کے واقعات و تغیرات: سیّدنا عبداللہ بن سعد المعروف بہ ابن ابی سرح سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے رضائی بھائی تھے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مرتبہ مرتد ہو کر پھر صدق دل سے مسلمان ہوئے تھے، سیّدنا عثمان غنی نے ان کو مصر کا عامل اور افسر خزانہ بنا کر بھیجا اور عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کو صرف فوجی افسر رکھا۔ ان فوجی و ملکی افسروں میں ناچاقی پیدا ہوئی اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس ناچاقی سے مطلع ہو کر ۲۶ ھ میں سیّدنا عمرو بن العاص کو قطعاً معزول و برطرف کر کے عبداللہ بن سعد کو مصر و اسکندریہ میں کامل اختیارات دے دیے، اگرچہ سیّدنا عبداللہ بن سعد بھی عرب کے مشہور بہادروں اور شہسواروں میں شمار ہوتے تھے لیکن وہ سیّدنا عمر و بن العاص کی طرح نہ تجربہ کار تھے نہ مصر میں سیّدنا عمرو کی سی ہردل عزیزی حاصل کر سکتے تھے۔