کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 466
عہد عثمانی کے قابل تذکرہ واقعات فتح اسکندریہ: سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی سال خلافت یعنی ۲۴ ھ میں کوئی اہم اور قابل تذکرہ واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوا، اس جگہ ایک بات بیان کر دینی ضروری ہے کہ قیصر روم ہرقل کا انتقال اسکندریہ کی فتح سے سات ماہ بعد قسطنطنیہ میں ہو چکا تھا، فتح بیت المقدس کے بعد ہرقل ایشیائے کوچک اور شام سے بھاگ کر قسطنطنیہ چلا گیا تھا، اور جس قدر ملک مسلمانوں نے فتح کیا تھا اس کے واپس کرنے سے مایوس اور بقیہ علاقہ کی حفاظت کی تدبیروں میں پریشان تھا۔ اس کے بعد جب سیّدنا عمروبن العاص نے مصر پر فوج کشی کی تو مقوقس شاہ مصر نے جزیہ کی ادائیگی پر صلح کر کے مصر و اسکندریہ ان کے سپرد کر دیاتھا،ہرقل مصر کو اپنا ایک صوبہ سمجھتا تھا اور مقوقس اس کا ماتحت تھا، مصر پر مسلمانوں کے قابض ہونے کی خبر سن کر ہرقل کو اور بھی صدمہ ہوا اور اسی رنج میں سات مہینے کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں فوت ہوا، اس کی جگہ اس کا بیٹا قسطنطین تخت نشین ہوا، قسطنطین نے اسکندریہ کے اوپر سے مسلمانوں کی سیادت اٹھانے اور براہ راست اپنے قبضے میں لانے کے لیے ایک زبردست مہم بھیجی، رومی فوج جہازوں کے ذریعہ قسطنطنیہ سے روانہ ہو کر ساحل اسکندریہ پر اتری، اسکندریہ میں مقوقس نے رومیوں کو داخل ہونے سے روکا اور اپنے اس عہد پر جو وہ مسلمانوں سے کر چکا تھا قائم رہا۔ مسلمانوں کو رومیوں کے اس حملہ کی اطلاع ہوئی تو وہ فسطاط (قاہرہ) سے نکلے، ادھر سے رومی اسکندریہ کو چھوڑ کر اسلامی چھاؤنی کی طرف متوجہ ہوئے، راستہ ہی میں مقابلہ ہوا، بڑی سخت لڑائی ہوئی، رومی فوج کا سپہ سالار اعظم مارا گیا اور بہت سے رومی میدان جنگ میں کھیت رہے، جو بچے انہوں نے بہ مشکل فرار اور اپنی کشتیوں پر سوار ہو کر قسطنطنیہ کی راہ لی، سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے رومیوں کو بھگا کر اسکندریہ اور نواح اسکندریہ کے باشندوں کے تمام ان نقصانات کی تحقیق کرائی جو رومی فوج کے ذریعہ ہوا تھا، ان تمام نقصانات کو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے پورا کیا، کیونکہ وہ ذمیوں کی حفاظت اور ان کو نقصانات سے بچانے کا اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے تھے۔ اس کے بعد سیّدنا عمرو بن العاص نے شہر اسکندریہ کی شہر پناہ کو منہدم کیا، اور اپنی چھاؤنی فسطاط کو