کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 462
الرائے حضرات سے دریافت کیا، تو کثرت رائے سیّدنا عثمان ہی کی نسبت ظاہر ہوئی، سہ روزہ مہلت کی آخری شب کو پھر مذکورہ بالا حضرات کا مجمع اسی مذکورہ مکان میں ہوا، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ کو الگ بلا کر کہا کہ عام طور پر علی و عثمان کی نسبت لوگوں کی زیادہ رائیں ظاہر ہوئی ہیں ، ان دونوں حضرات نے بھی انھی دونوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کی،پھر سیّدنا سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ آپ ہم سے تو بیعت لے لیں اور ہم کو ان جھگڑوں سے آزاد کر دیں ، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا یہ کیسے ممکن ہے، میں تو ان لوگوں کے دائرہ سے آزاد ہو چکا ہوں جو خلافت کے لیے نامزد ہوئے تھے۔
پھر سیّدنا عبدالرحمن نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو الگ لے جا کر کچھ باتیں کیں ، انہیں مشوروں اور باتوں میں صبح ہوگئی، یہی صبح انتخاب خلیفہ کے اعلان ہونے کی صبح تھی، لوگ منتظر تھے، نماز فجر کے بعد تمام مسجد نبوی آدمیوں سے کھچا کھچ بھر گئی، تمام حضرات مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئے سیّدنا عبدالرحمن بن عوف کیا فیصلہ سناتے ہیں ۔
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے کچھ فرمانے سے پہلے بعض لوگوں نے اپنی اپنی رائے ظاہر بھی کرنی شروع کر دی، یہ لوگ اصحاب شوریٰ میں نہ تھے مثلاً سیّدنا عمار نے کہا کہ میں سیّدنا علی کو مستحق خلافت سمجھتا ہوں ، ابن ابی سرح اور عبداللہ بن ابی ربیعہ نے کہا کہ ہم سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو زیادہ مستحق و مناسب پاتے ہیں ، اس قسم کی چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو سیّدنا سعد بن ابی وقاص نے سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اب دیر کیوں کر رہے ہو، اندیشہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے، تم جلد اپنی رائے کا اظہار کر کے اس مسئلہ کو ختم کر دو، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اٹھے اور تمام مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ جہاں تک میری طاقت میں تھا، میں نے ہر طبقہ اور ہرگروہ کی رائے معلوم کر لی ہے اور اس کام میں کسی غفلت و کم التفاتی کو مطلق راہ نہیں دی ، میرے فیصلے سے اب کسی کو انکار کا موقع حاصل نہیں ہے، کیونکہ بہ رضاورغبت تمام اصحاب شوریٰ اور نامزدگان خلافت نے میرے فیصلے کو ناطق تسلیم کر لیا ہے، اور میں اپنی تمام طاقت صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے صرف کر چکا ہوں ، یہ کہہ کر انہوں نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کے احکام اور سنت شیخین پر چلنے کا اقرار کرو، انہوں نے اقرار کیا کہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ کے نمونے پر چلنے کی کوشش کروں گا، اس کے بعد سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔