کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 461
جب سب صاحب اطمینان سے آ کر بیٹھ چکے تو سب سے اوّل سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے کھڑے ہو کر کہا کہ جو لوگ خلافت کے لیے نامزد کیے گئے ہیں ان میں سے کون ایسا ہے جو اپنے آپ کو خلافت سے دست بردار قرار دیتا ہے، اسی کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس کو تم میں سب سے افضل و لائق سمجھے اس کو خلیفہ مقرر کر دے، اس بات کو سن کر اس مختصر مجمع میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا، سب خاموش رہے، تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے پھر اعلان کیا کہ میں اپنے آپ کو خلافت سے دست بردار قرار دیتا ہوں اور انتخاب خلیفہ کے کام کو انجام دینے پر تیار ہوں ، یہ سن کر سب نے تائید کی اور سیّدنا عبدالرحمن بن عوف کو اختیار دیا کہ آپ جس کو چاہیں ہم میں سے خلیفہ منتخب فرما دیں مگر سیّدنا علی بن ابی طالب بالکل خاموش رہے، انہوں نے ہاں یا ناں کچھ نہیں کہا، تب سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا آپ نے کچھ نہیں فرمایا، آپ بھی اپنی رائے کا اظہار کیجئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں بھی اس رائے سے متفق ہوں ، لیکن شرط یہ ہے کہ تم پہلے یہ اقرار کر لو کہ جو فیصلہ کرو گے بلا رو رعایت، اور نفسانیت کو دخل دیئے بغیر محض حق پرستی اور امت کی خیر خواہی کے لیے کرو گے، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ میں تم سے عہد کرتا ہوں کہ بلا رو رعایت بلا نفسانیت اور محض امت کی بہتری و بھلائی کے لیے حق پرستی کی بنا پر فیصلہ کروں گا، لیکن تم سب اس بات کا اقرار کرو کہ جس کو میں منتخب کروں گا اس پر رضا مند ہو جاؤ گے اور جو میری رائے اور میرے فیصلے کی مخالفت کرے گا تم سب اس کے مقابلہ میں میری مدد کرو گے، یہ سن کر سیّدنا علی اور تمام مجمع نے اقرار کیا کہ ہم سب تمہارے فیصلہ کی تائید اور اس کے نفاذ میں تمہاری امداد کریں گے۔ یہ عہد و پیمان ہو جانے کے بعد مجمع منتشر ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے کیونکہ ابھی تین دن کی مہلت باقی تھی، اس دن کے عرصہ میں سیّدنا عبدالرحمن بن عوف برابر صاحب الرائے اور جلیل القدر صحابہ کرام سے ان کی رائیں دریافت کرتے رہے، خود بھی غور و خوض میں مصروف رہے، سیّدنا عبدالرحمٰن بن عوف سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے الگ لے جا کر دریافت کیا کہ اگر میں آپ سے بیعت نہ کروں تو تو آپ مجھے کس کی بیعت کرنے کی رائے دیتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ آپ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے، پھر میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی تنہائی میں یہی سوال کیا تو انہوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیا، پھر میں نے سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ سیّدنا علی یا سیّدنا عثمان دونوں میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کر لو، پھر میں نے سیّدنا سعد سے تنہائی میں دریافت کیا تو انہوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیا، پھر میں نے اور صاحب