کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 460
تھے، سر کے بال گھونگھر والے تھے، دونوں شانوں میں زیادہ فاصلہ تھا، دانت بہت خوبصورت تھے، کنپٹی کے بال بہت نیچے تک آئے ہوئے تھے، سیّدنا عبداللہ کا قول ہے کہ میں نے سیّدنا عثمان سے زیادہ حسین و خوبصورت کسی مرد و عورت کو نہیں دیکھا۔ انتخاب : سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے انتخاب خلیفہ کے لیے تین دن کی مہلت مقرر فرما کر سیّدنا مقداد کو حکم دے دیا تھا کہ نامزد شدہ چھ اشخاص کی مجلس میں جب تک کہ وہ اپنے آپ میں سے کسی کو خلیفہ منتخب نہ کر لیں ، کسی دوسرے کو نہ جانے دینا، صرف عبداللہ بن عمر کو رائے دینے کے لیے شریک ہونے کی اجازت تھی تاکہ اس طرح رائے دہندوں کی تعداد طاق یعنی سات ہو جائے، لیکن عبداللہ بن عمرؓ کے لیے پہلے سے آپ نے یہ حکم صادر فرما دیا تھا کہ ان کو ہرگز خلیفہ منتخب نہ کیا جائے، اس وقت کسی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے لیے کہا تو آپ نے فرمایا تھا کہ بار خلافت کی ذمہ داری میرے لیے ہی کیا کم ہے کہ میں اپنے خاندان میں دوسروں پر بھی یہ محنت ڈالوں ، اور ان کو بہت سی آسائشوں سے محروم کر دوں ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے جب کسی شخص نے خلیفہ کے متعین و نامزد فرما دینے کے لیے کہا تو آپ نے جواب دیا کہ میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کر کے کسی کو اپنے بعد نامزد کروں تو یہ میرے لیے جائز ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر کے کسی کو اپنے بعد نامزد نہ کروں تو یہ بھی میرے لیے جائز ہے، میں اگر اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کرتا تو وہ ابوعبیدہ بن الجراح تھے جو مجھ سے پہلے فوت ہو گئے، یا پھر میں ابو حذیفہ کے غلام سالم کو خلیفہ بناتا وہ بھی مجھ سے پہلے فوت ہو گئے، یہ فرما کر پھر آپ نے ان چھ شخصوں کے نام لیے جو اوپر درج ہو چکے ہیں ۔ سیدنا مقدادالاسود اور سیّدنا ابوطلحہ انصاری نے وصیت فاروقی کے موافق فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر سیّدنا صہیب کو تو عارضی طورپر تین دن کے لیے تا انتخاب خلیفہ مدینہ کا حکمران اور امام مقرر کیا اور خود اپنے آدمیوں کی جمعیت لے کر سیّدنا علی ، سیّدنا عثمان، سیّدنا زبیر ، سیّدنا سعد عبدالرحمن، اور سیّدنا عبداللہ بن عمر کو مسور بن مخرمہ اور بقول دیگر سیّدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں جمع کر کے دروازے پر حفاظت کی غرض سے بیٹھ گئے، سیّدنا طلحہ مدینہ میں موجود نہ تھے، کوئی اور اس مکان میں داخل نہیں ہو سکتا تھا، سیّدنا عمرو بن العاص اور سیّدنا مغیرہ بن شعبہ دروازے پر آکر بیٹھ گئے تھے، سیّدنا سعد بن ابی وقاص کو معلوم ہوا تو انہوں نے ان دونوں کو دروازے پر بھی نہ بیٹھنے دیا، اور وہاں سے اٹھوا دیا تاکہ وہ کہیں یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم بھی اصحاب شوریٰ میں شامل تھے۔