کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 46
ہو سکتا اور پیدا ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا، کسی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا پیدا ہونا تو بہت ہی بڑی بات ہے۔
انسانی فریب خوردگیوں اور انسانی پست ہمتیوں ، کی غالباً یہ سب سے زیادہ بد نما اور عظیم الشان مثال ہے کہ ہم آج بہت سے مسلمانوں کو بھی یورپ و امریکہ والی جمہوریتوں کا خواہش مند دیکھ رہے ہیں جو اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف اور بنی نوع انسان کے لیے بڑی ہی خطرناک چیز ہے، مسلمانوں کے خیالات کا یہ تغیر نتیجہ ہے ان کی بزدلی اور کم ہمتی کا۔ یہ بزدلی اور کم ہمتی دین سے ناواقف ہونے اورقرآن و حدیث پر نظر نہ کرنے کے سبب پیدا ہوئی ہے۔
شخصی وراثتی سلطنت:
جب کوئی شخص تخت سلطنت کا مالک اور تاج حکومت پر متصرف ہو جاتا ہے تو نسب اور خون کا تعلق اور اس کی فطری محبت کا تقاضا اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس امر کی کوشش کرے کہ اس کے بعد جس طرح اس کا بیٹا اس کی مملوکات و مقبوضات کا وارث و مالک ہو گا اسی طرح اس کی بادشاہت و حکومت کا بھی وارث ہو، لیکن یہ اس کی غلطی ہوتی ہے۔ کیونکہ بادشاہت اس کی ملکیت نہ تھی بلکہ وہ ایک امانت تھی جو ملک و قوم نے اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ اس کا کیا حق ہے کہ وہ امانت پر تصرف کرے اور بے اختیار خود کسی کے سپرد کرے۔ امانت ہمیشہ اس کے مالک کو سپرد ہونی چاہیے۔ لہٰذا اس بادشاہ کے بعد بادشاہت کا کسی دوسرے کے سپرد کرنا ملک و قوم کا کام ہے، نہ اس بادشاہ کا، لیکن بادشاہ یا خلیفہ یا حکمران چونکہ سب کا مطاع اور بڑی بڑی طاقتوں پر عامل و قابض ہوتا ہے، لہٰذا اس کو اس خیانت سے باز رکھنے اور اس غلط کاری سے بچانے کے لیے اس بڑی ہمت اور اس قوی ارادے اور اس طاقت ور قلب اور اس بلند حوصلہ کی ضرورت ہے جو اسلام اپنے ہر ایک پیرو میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن حکیم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اندر پیدا کردیا تھا۔
مسلمانوں نے تعلیم اسلام کی طرف سے اعراض کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اس ہمت، ارادے اور حوصلے میں کمی واقع ہو گئی جو اسلام نے پیدا کیا تھا اور وہ اپنے حکمرانوں کو اس خیانت سے باز نہ رکھ سکے بلکہ کم ہمتی کے سبب حکمرانوں کی اس خیانت پر رضا مند ہو گئے، بالآخر شخصی وراثتی سلطنت کی رسم بدجو خلافت راشدہ کے عہد مسعود میں مٹ چکی تھی مسلمانوں میں جاری ہو گئی اور اس رسم بد پر رضا مند ہو جانے کا خمیازہ مسلمانوں کو بارہا بھگتنا پڑا۔
وراثت ولی عہدی کی نامعقول و ناستودہ رسم نے بسا اوقات ایسے ایسے نالائق و ناہنجار لوگوں کو مسلمانوں کا حکمران بنایا جن کو معمولی بھلے آدمیوں کی مجلس میں بھی جگہ نہیں ملنی چاہیے تھے، بے شک