کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 459
سوائے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اور کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں گزرا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں رہی ہوں ۔
مناسک حج سب سے بہتر سیّدنا عثمان جانتے تھے، آپ کے بعد سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ چوتھے مسلمان تھے، یعنی آپ سے پیشتر صرف تین شخص ایمان لا چکے تھے۔ آپ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تحریک سے مسلمان ہوئے تھے۔
آپ صحابہ کرام میں بہت مال دار تھے اور اسی طرح سب سے زیادہ سخی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے تھے۔
آپ سیّدنا رقیہ رضی اللہ عنہ کی سخت علالت کے سبب جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت و حکم کے موافق مدینہ منورہ میں رہے تھے، لیکن جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے آپ کو حصہ اسی قدر ملا جس قدر شرکاء جنگ کو ملا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو اصحاب بدر میں شامل سمجھنا چاہیے۔[1] چنانچہ اصحاب بدر میں آپ کا شمار کیا جاتا ہے۔
آپ صحابہ کرام میں کثرت عبادت کے لیے خصوصی شہرت رکھتے تھے، رات بھر کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے اور برسوں روزے رکھا کرتے تھے، مسجد نبوی کی بغل میں ازواج مطہرات کے لیے کچھ زمین آپ نے اپنے خرچ سے خریدی تھی۔
ایک سال مدینہ میں قحط پڑا تو آپ نے تمام محتاجوں کو غلہ دیا، مسلمان جب مدینہ میں آئے تو پانی کی وہاں سخت تکلیف تھی، ایک یہودی کا کنواں تھا، وہ پانی نہایت ہی گراں فروخت کرتا تھا، آپ نے وہ کنواں اس یہودی سے ۳۵ ہزار درہم کو خرید کر وقف کر دیا، آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، مسلمان ہونے کے بعد ہر ہفتے ایک غلام خرید کر آزاد کیا کرتے تھے، آپ نے کبھی اپنے مال دار ہونے پر فخر نہیں کیا اور زمانۂ جاہلیت میں بھی آپ نے کبھی شراب نہیں پی، آپ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت عمدگی اور احتیاط کے ساتھ روایت کیا کرتے تھے، آپ نے جنگ تبوک کے واسطے ساڑھے چھ سو اونٹ اور پچاس گھوڑے راہ اللہ تعالیٰ میں پیش کیے، عہد جاہلیت میں آپ امرائے مکہ میں شمار ہوتے تھے۔
حلیہ مبارک:
آپ میانہ قد چیچک زدہ خوبصورت شخص تھے، ڈاڑھی گھنی تھی، اس کو حنا سے رنگین رکھتے تھے، آپ کی ہڈی چوڑی تھی، رنگت میں سرخی جھلکتی تھی، پنڈلیاں بھری بھری تھیں ، ہاتھ لمبے لمبے تھے، جسم پر بال
[1] صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس، حدیث ۳۱۳۰۔