کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 455
تھا، مسلمانوں کا ہر ایک کام خدائے تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے تھا، وہ اپنی سادگی کے مقابلے میں ایرانیوں اور رومیوں کے سامان تکلف اور اسباب زینت کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، مسلمانوں کے اندر کوئی اختلافی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا، ہر شخص اپنے آپ کو ہر وقت خدائے تعالیٰ کی جناب میں حاضر سمجھتا اور اپنے قلب کو ہمہ وقت گداز پاتا تھا۔ غرض یہ وہ زمانہ تھاجس میں ہر ساعت اور ہر لمحہ رشد و سعادت کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا، باقی نصف آخر بھی بہت اچھا اور رشد و سعادت ہی کا زمانہ ہے، لیکن وہ اس نصف اوّل کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا، اس نصف اوّل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا پورا پورا نمونہ اور عکس موجود نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی ہمت رضائے الٰہی کے حصول اور اعلائے کلمتہ اللہ کی کوشش میں صرف ہوتی تھی، مال و دولت کا حاصل کرنا اور عیش جسمانی کی طلب میں ساعی رہنا قطعاً مفقود و معدوم تھا، خلیفہ وقت خلیفہ ہونے سے پیشتر جس طرح پیوند لگے ہوئے کپڑے استعمال کرتا تھا اسی طرح خلیفہ اور تمام اسلامی دنیا کا شہنشاہ بن جانے کے بعد بھی اس کے ملبوس میں کوئی فرق نہ ہوتا تھا، وہی پیوند جو مرتبہ خلافت پر فائز ہونے سے پہلے تھے بعد میں برابر دیکھے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے عراق و شام و مصر کے سر سبز و زرخیز علاقوں کو فتح کیا، اور ایرانی شہروں پر قابض ہوئے، لیکن فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے آخر عہد خلافت تک ان فاتح مسلمانوں نے شام کے عیسائیوں اور ایران کے مجوسیوں کی عیش پرستی و راحت طلبی سے رتی برابر بھی اثر قبول نہیں کیا، عراق و فارس کو مسلمانوں نے فتح کیا، لیکن اس فاتح فوج کا قیام کوفہ و بصرہ میں چھپروں اور خیموں کے اندر رہا، اسی طرح شام کے ملک میں اسلامی لشکر نے شام کے شہروں کو اپنی قیام گاہ نہیں بنایا، بلکہ وہ موصل و دمشق کے صحراؤں اور پہاڑوں میں شہروں اور شہریوں کے عیش و تکلفات سے بے خبر قیام پذیر رہتے، اور اپنی اس سپاہیانہ زندگی اور صعوبت کشی پر مسرور و مطمئن تھے، جس لشکر نے مصر کو فتح کیا، اس نے مصر کے سامان عیش رکھنے والے شہروں کو اپنے قیام کے لیے منتخب نہیں کیا، بلکہ فسطاط کی چھاؤنی کو جو آج شہر قاہرہ کی شکل میں تبدیل ہو گئی ہے پسند کیا، صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نہ صرف خود لوگوں کو زاہدانہ زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیتے تھے بلکہ خود اس کے اوپر عمل کر کے بھی انہوں نے اپنا بہترین نمونہ لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ بیت المال کا ایک پیسہ بھی وہ بے جا خرچ نہ کرتے تھے اور نہ کسی کو ایک پیسہ ناجائز خرچ کرنے کی اجازت دیتے تھے، خلیفہ وقت بلا امتیاز خاندان و قبیلہ ہر ایک مسلمان کے ساتھ محبت کرتا، اور ہر خطا وار کو بلا امتیاز قبیلہ یکساں سزا دیتا تھا۔