کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 454
بانی کے وہ اصول اورگر سکھا دیئے تھے کہ ان کے مقابلے میں ایرانیوں اور رومیوں کی تہذیب اور اصول جہاں داری کسی طرح ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکتے تھے، مسلمانوں نے جس بستی، جس شہر، جس ضلع اور جس صوبے کو فتح کیا وہاں کی غیر مسلم آبادی نے مسلمانوں کی آمد اور مسلمانوں کی حکومت کو جنت خیال کیا اور یہ سمجھا کہ اپنے ہم مذہبوں کی حکومت سے آزاد ہونا گویا ہمارے لیے دوزخ سے آزاد ہونا تھا، مفتوح اقوام نے اپنے فاتح عربوں کے اخلاق ، شفقت علی خلق اللہ، عدل، رحم، سیر چشمی، بلند حوصلگی وغیرہ کو دیکھ کر بخوشی اپنے آپ کو ان کے قدموں میں ڈال دیا اور حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان اپنی انسانیت کو ان عرب فاتحین کی بدولت بچا سکی، پس رومیوں اور ایرانیوں کا کیا حوصلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں فتح مند ہو سکتے۔ ایک تیسری بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں میں نہ صرف بہادری اور شجاعت پیدا کر دی تھی بلکہ ان جیسی اتفاق و ایثار اور قربانی کی مثال کسی قوم اور کسی ملک میں ہرگز دستیاب نہ ہو سکے گی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اسلام کی بدولت پیدا ہو گئی تھی۔ خلافت راشدہ کا نصف اول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عہد، اسلام کی دینی و مذہبی حکومت یعنی خلافت راشدہ کا نصف اوّل کہا جا سکتا ہے، نصف آخر میں سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کا عہد حکومت ہے، خلافت راشدہ کے نصف اوّل کا حال بیان ہو چکا ہے، آئندہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حالات سے خلافت راشدہ کا نصف آخر شروع ہونے والا ہے۔ مذکورہ نصف اوّل کی خصوصیات میں ایک یہ بات ہے کہ کسی جگہ بھی دین کے مقابلے میں دنیا مقدم نظر نہیں آتی، اعلائے کلمۃ اللہ کے مقابلے میں کسی شخص کا واہمہ بھی کسی ذاتی غرض، ذاتی منفعت، قوم یا قبیلہ کی بے جاحمایت، کسی رشتہ داری یا دوستی کے پاس و لحاظ کی طرف نہیں جاتا، خالص اسلامی رنگ اور خالص عربی تمدن ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معرکوں میں شریک ہونے والے حضرات بکثرت موجود تھے، وہی سب کی نگاہوں میں واجب التکریم سمجھے جاتے تھے اور ان کا نمونہ سب کے لیے مشعل راہ تھا، مسلمانوں میں نا اتفاقی اور پھوٹ کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا تھا، میدان جنگ میں مسجدوں میں ، قیام گاہوں میں ، شہروں میں مسافرت کے قافلوں میں غرض ہر جگہ جہاں جہاں مسلمان تھے اتفاق ، اتحاد یک جہتی اور ایثار کے دریا بہتے ہوئے نظر آتے تھے حسد، خود غرضی، اور عداوت کا جمعیت اسلامی کے اندر کہیں پتہ نہ چلتا