کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 453
طاقت ان کے مقابلے پر آنے والی دنیا میں پائی نہیں جاتی تھی، مسلمانوں کی اس حیرت انگیز کامیابی اور خارق عادت فتوحات کے اسباب بیان کرتے ہوئے عیسائی اور غیر مسلم مؤرخ کہتے ہیں کہ رومی اور ایرانی دونوں سلطنتیں کمزور ہو گئی تھیں ، اس لیے مسلمانوں کو بہ آسانی فتوحات کا موقع مل گیا، لیکن یہ وجہ بیان کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ عربوں یا مسلمانوں کی طاقت ان کمزور شدہ سلطنتوں کے مقابلے میں کیا تھی، جب مسلمانوں اور ان دونوں سلطنتوں کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا ہے تو رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان کوئی مخالفت اور لڑائی نہیں تھی، نہ رومی ایرانیوں کے دشمن تھے، نہ ایرانی رومیوں کے خون کے پیاسے تھے، دونوں سلطنتوں کو الگ الگ اپنی اپنی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کر دینے کی سہولت حاصل تھی جبکہ مسلمانوں کو بہ یک وقت رومیوں اور ایرانیوں دونوں طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑا، یہ دونوں سلطنتیں مہذب و متمدن سلطنتیں سمجھی جاتی تھیں اور بہت پرانی حکومتیں تھیں ، ان کے پاس سامان حرب بافراط اور انتظامات مکمل، فوج باقاعدہ مرتب منتخب فوجی سردار اور انتظامی اہل کار شائستہ و تجربہ کار موجود، جبکہ مسلمان اور عرب قوم ان چیزوں سے تہی دست تھی۔ پھر یوں بھی طاقتوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایرانی بھی اور رومی بھی ایک ایک میدان میں دو دو لاکھ سے زیادہ مسلح اور آہن پوش لشکر لا سکے، درآنحالیکہ اس دو لاکھ لشکر کی پشت پر کسی عقب کے مقام پر اسی قدر تعداد کا دوسرا مکمل لشکر بھی موجود ہوتا تھا اور اس دو لاکھ کے لشکر کو لڑتے ہوئے اطمینان ہوتا تھا کہ ہماری امداد کے لیے ہمارے پیچھے ہمارے بھائیوں کی اتنی ہی بڑی تعداد اور موجود ہے، لیکن مسلمانوں کی بڑی سے بڑی فوج جو کسی میدان میں جمع ہو سکی ہے، وہ تیس چالیس ہزار سے زیادہ نہ تھی اور یہ تعداد ہمیشہ اپنے دو دو لاکھ حریفوں کو میدان سے بھگانے اور فتح پانے میں کامیاب ہوئی، حالانکہ اس کی پشت پر کوئی زبردست فوجی چھاؤنی بھی نہ ہوتی تھی، پس یہ کہہ کر فارغ ہو جانا کہ ایرانیوں اور رومیوں کی سلطنتیں پہلے کی نسبت کمزور ہو گئی تھیں نہایت ہی احمقانہ بات ہے اور اور اس سے مسلمانوں کی فتح مندی کے اسباب تلاش کرنے کے کام سے ایک متلاشی حقیقت کو فراغت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کو اگر تلاش کرنا ہو تو اس بات پر غور کرو، ایرانی اور رومی دونوں شرک میں مبتلا تھے اور عرب ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر توحید پر قائم ہو چکے تھے، شرک ہمیشہ انسان کو بزدل اور ایمان ہمیشہ بہادر بنا دیتا ہے، بس ایمان و توحید کی بدولت عربوں میں وہ سچی بہادری پیدا ہو چکی تھی ، جو ایمان کے لیے شرط لازم ہے اور جو کسی طاقت سے کبھی مغلوب ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں کو قرآن کریم اور اسوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جہاں