کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 452
نہاوند کے مقام پر کفار کے مقابلہ میں مصروف ہے، آپ نے فرمایا اس وقت میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا کہ مسلمان مصروف جنگ ہیں اور پہاڑ کی طرف متوجہ ہونا ان کے لیے مفید ہے، لہٰذا بے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے، جب ساریہ کا خط اور ایلچی آیا، ٹھیک جمعہ کے روز عین نماز جمعہ کے وقت اسی تاریخ کا واقعہ اس خط میں لکھا گیا اور ایلچی نے زبانی بھی بیان کیا۔ ایک مرتبہ سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم سے کہا کہ لوگ آپ سے بہت ڈرتے ہیں اور آپ کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے، اور نہ آپ کے سامنے لب ہلا سکتے ہیں ، فاروق اعظم نے فرمایا کہ واللہ جس قدر یہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں اس سے زیادہ میں ان لوگوں سے ڈرتا ہوں ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صوبوں کے عاملوں اور گورنروں کو حکم دے رکھا تھا کہ ایام حج میں سب آکر شریک حج ہوں ، آپ خود بھی ہر سال حج کو جاتے رہے، عاملوں کے شریک حج کرنے میں ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ حج کے موقع پر ہر ملک اور ہر صوبے کے لوگوں کو موقع حاصل ہے کہ وہ آ کر مجھ سے ملیں اور اپنے عامل میں اگر کوئی نقص دیکھتے ہیں تو اس کی شکایت کریں اور اسی وقت اس عامل سے بھی جو وہاں موجود ہے جواب طلب کیا جا سکے، اس طرح عاملوں کو اپنی عزت بچانے کا بہت خیال رہتا تھا کہ اگر ذرا سی بھی لغزش ہو گئی، تو حج کے مجمع عام میں بڑی فضیحت اور رسوائی ہو گی۔ آپ مساوات و جمہوریت کے حقیقت مفہوم سے واقف، اور اس کو قائم کرنا چاہتے تھے، نہ یہ کہ آپ آج کل جیسی یورپی جمہوریت کے دل دادہ تھے جو تعلیم اسلامی اور اصول اسلامی کے خلاف ہے، ایک مرتبہ سر منبر ایک عورت نے آپ کو ٹوک دیا اور آپ کے قول کو غلط بتایا، عورت نے چونکہ صحیح بات کہی تھی، لہٰذا آپ نے مجمع عام میں فوراً اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا، آج کل جبہ پوش نفس پرور مولویوں کی طرح اپنے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لیے تاویلیں اور دوراز حقیقت باتیں بنانے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ فتوحات پر ایک نظر: فتوحات فاروقی کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل بیان کیا جاتا ہے، یہ فتوحات ایران اور روم کی شہنشاہیوں کے مقابلے میں عرب کی ایک مفلوک الحال اور چھوٹی سے قوم کو حاصل ہوئیں ۔ روم کی سلطنت جزیرہ نما بلقان، ایشیائے کوچک ، شام، فلسطین، مصر، سوڈان پر چھائی ہوتی تھی، ایران کی سلطنت چند سال پیشتر اس قدر طاقتور تھی کہ رومی سلطنت کو شکست دے کر شام کے ملک میں فاتحانہ بڑھتی ہوئی ساحل بحر اور مصر تک پہنچ گئی تھی، ایرانیوں کے قبضہ میں رومیوں سے کم ملک نہ تھے، یہ دونوں سلطنتیں مشرقی و مغربی دنیا پر اپنے اثر، شہرت اور تمدن کے اعتبار سے مستولی تھیں ، اور کوئی تیسری