کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 45
ہرگز مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔
دنیا میں ہر ایک باپ اپنے بیٹے سے فرماں برداری کی توقع رکھتا ہے اور بیٹے کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ اپنے باپ کی فرماں برداری کرے، ہر ایک استاد اپنے شاگردوں سے فرماں برداری کا خواہاں ہے اور شاگردوں کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ استاد کی فرماں برداری کریں ۔ ہر ایک لیڈر اور ہر ایک رہبر اپنے پیروؤں سے پیروی اور فرماں برداری کا خواہاں ہے اور ان کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ پیروی اور فرماں برداری بجا لائیں ۔ ہر ایک سپہ سالار میدان جنگ میں اپنے سپاہیوں سے اپنے احکام کی تعمیل چاہتا ہے اور سپاہیوں کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ اپنے سپہ سالار کی بلاچون و چرا فرماں برداری کریں ۔
جمہوریت کا مجموعی اثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی، شاگرد اپنے استاد کی ، عوام اپنے لیڈر کی سپاہی اپنے سپہ سالار کی اطاعت و فرماں برداری کو اپنے لیے محنت اور سرا سرگراں محسوس کرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ تمام چیزیں زائل ہو کر انسان اس دہریت اور لامذہبیت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو اس کو انسانیت سے خارج کر کے بہیمیت کے مقام پر لانا چاہتی ہے۔
جمہوریت کا مقام چونکہ مذہبیت کے خلاف واقع ہوا ہے، لہٰذا جس قدر مذہبیت کو صدمہ پہنچے گا اسی قدر امن و سکون اور راحت و اطمینان ملک و قوم سے فنا ہو جائے گا، کیونکہ حقیقی مدنیت اور حقیقی امن و سکون صرف مذہب کی بدولت دنیا میں قائم ہو سکتا ہے، حکومت و سلطنت اس معاملہ میں ہمیشہ ناکام رہی ہے، گھروں کے اندر، تنہائی کے موقعوں ، بیابانوں ، ریگستانوں اور راستوں وغیرہ میں انسان حکومت کی طاقت اور پولیس کی نگرانی سے بالکل آزاد ہوتا ہے، ان مقامات پر قتل چوری، زنا وغیرہ جرائم سے مذہب ہی باز رکھ سکتا ہے، نہ کہ حکومت، اگر روئے زمین کے تمام باشندے لامذہب ہو جائیں تو سطح زمین کشت و خون، قتل و غارت ، چوری زنا، جھوٹ، فریب وغیرہ بدتمیزیوں اور شرارتوں سے لبریز ہو کر نوع انسانی کے لیے جہنم بن جائے۔[1]
یورپ و امریکہ کی جمہوریتوں میں ہم کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتے جس کے لیے بجا طور پر ہمارے دل میں رشک پیدا ہو سکے۔ انھی ملکوں میں لامذہبیت زیادہ پائی جاتی ہے، انھی میں معاشرت انسانی بے حیائی کی طرف زیادہ مائل ہے، انہیں میں وعدہ خلافی بے وفائی، خود مطلبی، دروغ بیانی، دھوکا دہی وغیرہ لوگوں کے عام چال چلن کا جزو بن جاتے ہیں ، جمہوری حکومتوں میں کوئی نپولین ، کوئی قیصرولیم، کوئی جولیس سیرز، کوئی تیمور، کوئی ہنی بال، کوئی صلاح الدین، کوئی سلیمان قانونی، کوئی شیر شاہ، کوئی عالمگیر، بھی ہرگز پیدا نہیں
[1] یعنی برائیوں ، فسادات وغیرہ کی آماجگاہ بن جائے۔