کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 447
بتایا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو یا جس نے اللہ تعالیٰ کو ایک سجدہ بھی کیا ہو۔ ایک طبیب نے آکر آپ کو دودھ اور نبیذ پلایا تو وہ زخم کے راستے باہر نکل آیا، یہ حالت دیکھ کر لوگوں کو آپ کی زندگی سے مایوسی ہوئی اور عرض کیا کہ جس طرح سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرما دیا تھا اسی طرح آپ بھی کسی کو اپنا جانشین مقرر فرما دیں ۔ آپ نے سیّدنا عبدالرحمن بن عوف، سیّدنا سعد بن ابی وقاص، سیّدنا زبیر بن العوام ، سیّدنا طلحہ، سیّدنا علی، سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کو طلب فرمایا، سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں تشریف نہ رکھتے تھے، فاروق اعظم نے باقی پانچ آدمیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تین روز تک طلحہ کا انتظار کرنا، اگر وہ تین روز تک آ جائیں تو ان کو بھی اپنی جماعت میں شامل کرنا اور تین روز تک نہ آئیں تو پھر تم پانچ آدمی ہی مشورہ کر کے اپنے آپ میں سے کسی ایک کو اپنا امیر بنا لینا، اس کے بعد آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو بلا کر کہا کہ اگر لوگ خلافت و امارت کے انتخاب میں اختلاف کریں تو تم کثرت کے ساتھ شریک ہونا اور اگر فریقین برابر تعداد کے ہوں تو تم اس گروہ میں شریک ہونا جس میں عبدالرحمن بن عوف شامل ہوں ۔ پھر ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اور مقدادبن الاسود رضی اللہ عنہ کوبلا کر حکم دیا کہ جب یہ لوگ خلیفہ کے تقرر اور انتخاب کی غرض سے ایک جگہ مشورہ کے لیے جمع ہوں تو تم دونوں دروازے پر کھڑے رہنا اور کسی کو ان کے پاس نہ جانے دینا جب تک وہ مشورے فارغ نہ ہو جائیں ۔ پھر آپ نے مذکورہ بالاحضرات کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص خلافت کے لیے منتخب ہو، اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے حقوق کا بہت لحاظ رکھے، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی، مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا، انصار تمہارے محسن ہیں ، ان کے ساتھ تم کو احسان کرنا چاہیے، ان کی خطاء و لغزش سے حتی الامکان درگزر اور چشم پوشی اختیار کرنا مناسب ہے، تم میں سے جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو مہاجرین کا بھی پاس و لحاظ رکھنا چاہیے، کیونکہ یہی لوگ مادئہ اسلام ہیں ، اسی طرح ذمیوں کا بھی پورا پورا خیال رکھنا چاہیے، ان کے ساتھ اللہ اور رسول کی ذمہ داری کو کما حقہ ملحوظ رکھا جائے اور ذمیوں سے جو وعدہ کیا جائے اس کو ضرور پورا کیا جائے، ان کے دشمنوں کو دور کیا جائے ان کی طاقت سے زیادہ ان کو تکلیف نہ دی جائے۔ پھر اپنے بیٹے سیّدنا عبداللہ بن عمر کو بلا کر حکم دیا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جاؤ اور سیّدنا ابوبکرصدیق کے پہلو میں دفن کیے جانے کی اجازت حاصل کرو، وہ سیّدنا صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت