کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 438
حال نہ کہہ لو گے اور پانی نہ پی لو گے کسی خطرہ میں نہ ڈالے جاؤ گے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سن کر حیران رہ گئے اور ہرمزان سے مخاطب ہو کر بولے کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے، مگر میں تم کو کوئی دھوکا نہ دوں گا، مناسب ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ، ہرمزان نے اسی وقت کلمہ توحید پڑھا، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے، ہرمزان کو مدینے میں رہنے کی جگہ دی، دو ہزار سالانہ تنخواہ مقرر کر دی، اور اس کے بعد مہم فارس میں اکثر ہرمزان سے مشورہ لیتے رہتے تھے اس کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے انس بن مالک اور احنف بن قیس وغیرہ ارکان سفارت سے مخاطب ہو کر کہا کہ شاید تم لوگ ذمیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ہو، اسی لیے یہ بار بار بغاوت اختیار کرتے ہیں ۔ یہ سن کر سیّدنا احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا کہ امیر المومنین ہم ہمیشہ اپنے وعدوں کا ایفاء کرتے اور ذمیوں کے ساتھ نہایت رافت و محبت کا برتاؤ کرتے ہیں ، لیکن ان لوگوں کی بار بار بغاوت و سرکشی کا سبب صرف یہ ہے کہ آپ نے ہم کو بلاد فارس میں آگے بڑھنے کی ممانعت کر دی ہے، اہل فارس کا بادشاہ یزدجرد فارس کے ملک میں زندہ موجود ہے، جب تک یزدجرد فارس کے ملک میں زندہ و سلامت موجود رہے گا اس وقت تک اہل فارس لڑنے اور ہمارا مقابلہ کرنے سے کبھی باز نہ آئیں گے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے احنف کے کلام کی تصدیق کی اور اس کے بعد بلاد فارس میں اسلامی فوجوں کو پیش قدمی کی اجازت دے دی۔ فتح مصر: فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس تشریف لے گئے تھے تو عمرو بن العاص نے ان سے مصر پر فوج کشی کی اجازت حاصل کر لی تھی، چنانچہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیّدنا زبیر بن العوام کو عمروبن العاص کا کمکی مقرر فرمایا تھا ، عمروبن العاص چار ہزار اسلامی لشکر لے کر مصر کی جانب بڑھے، مصر کے بادشاہ مقوقس کے پاس فاروق اعظم کی ہدایت کے موافق سیّدنا عمرو نے تین شرطیں یعنی اسلام، جزیہ، جنگ لکھ کر بھیج دیں ، آج کل مصر میں رومی سردار ارطبون بھی مع اپنی فوج کے مقیم تھا، سب سے پہلے ارطبون اپنی فوج لے کر آگے بڑھا اور سخت معرکہ کے بعد شکست کھا کر بھاگا، مسلمانوں نے مقام عین شمس کا آگے بڑھ کر محاصرہ کر لیا اور یہیں سے مصر کی فوجی چھاؤنی حصار اور اسکندریہ کے محاصرے کے لیے دو دستے روانہ کیے، تینوں جگہ چند روز تک لڑائی اور محاصرہ کا سلسلہ جاری رہا، بالآخر عین شمس والوں نے جزیہ دے کر صلح کر لی، صلح کے بعد سیّدنا عمروبن العاص نے ان قیدیوں کے واپس دینے سے انکار کیا جن کو بحالت جنگ اس سے پہلے گرفتار کر چکے تھے، یہ معاملہ فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ مصریوں کے تمام قیدیوں کو واپس کر دو۔