کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 435
فاروق اعظم کو ان کے پرچہ نویس نے اطلاع دی کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو صوبہ جزیرہ کی فتح سے ابھی واپس ملک شام میں آئے ہیں اپنے ساتھ بے حد مال و دولت لائے ہیں اور انہوں نے اپنی مدح کے صلہ میں اشعث بن قیس شاعر کو دس ہزار درہم دیئے ہیں ، سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ خالد رضی اللہ عنہ سے سر مجلس دریافت کیا جائے کہ تم نے اشعث کو انعام اپنی گرہ سے دیا ہے یا بیت المال سے، اگر اپنی گرہ سے دیا ہے تو اسراف ہے اور بیت المال سے دیا ہے تو خیانت، دونوں صورتوں میں معزولی کے قابل ہو، خالد رضی اللہ عنہ کا عمامہ اتار کر اسی عمامہ سے ان کی گردن باندھی جائے، قاصد سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہہ دیاتھا کہ اگر خالد بن ولید اپنی غلطی کا اقرار کریں تو ان سے درگزر کی جائے، چنانچہ وہ مجمع عام میں بلائے گئے، قاصد نے ان سے پوچھا کہ یہ انعام تم نے کہاں سے دیا؟ خالد رضی اللہ عنہ یہ سن کر خاموش رہے اور اپنی خطا کا اقرار کرنے پر رضا مند نہ ہوئے، مجبوراً قاصد نے ان کا عمامہ اتارا اور اسی سے ان کی گردن باندھی اور پھر دوبارہ دریافت کیا تو خالد نے کہا کہ اشعث کو میں نے اپنے مال سے انعام دیا، بیت المال سے نہیں دیا، قاصد نے یہ سنتے ہی گردن کھول دی اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اس کیفیت کی اطلاع دی۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید کو جواب دہی کے لیے مدینہ منورہ میں طلب فرمایا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر کہا کہ عمر! واللہ تم میرے معاملہ میں انصاف نہیں کرتے ہو، فاروق اعظم نے کہا، تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی اور اس قدر انعام و صلہ شاعر کو تم نے کہاں سے دیا؟ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مال غنیمت سے جو میرے حصہ میں آیا تھا انعام دیا تھا، پھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ساٹھ ہزار سے جو کچھ زیادہ ہو وہ بیت المال میں داخل کرتا ہوں ، چنانچہ حساب کرنے پر بیس ہزار زائد نکلے اور بیت المال میں داخل کر دیے گئے۔
اس کے بعد دونوں حضرات میں صفائی ہو گئی اور کوئی وجہ کدورت باقی نہ رہی، سیّدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ شکایت شروع سے تھی کہ وہ فوجی حساب کتاب کو صاف نہ کرتے تھے اور مکمل حساب نہ سمجھاتے تھے، اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ آزادانہ صرف کر دیا کرتے تھے اور ان کی شاہ خرچیاں اکثر اوقات کسی قاعدے کے تحت نہ آ سکتی تھیں ، اسی لیے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کا ایک درجہ توڑ دیا تھا اور اب چشم نمائی کے طور پر دارالخلافہ میں طلب فرما کر ایک نوع کی تنبیہ کر دی تھی۔
بصرہ کوفہ:
۱۴ ھ سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو سردار لشکر کی رپورٹوں اور عراق کی طرف سے آنے والے سپاہیوں