کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 434
یمن کے لیے مخصوص ہے، ہاں اس شرط کا ان لوگوں کو ضرور پابند بناؤ کہ جن لڑکوں کے والدین مسلمان ہو گئے ہیں ان کو عیسائی نہ بنائیں ، یعنی مسلمانوں کی اولاد کو عیسائی بنانے کی کوشش نہ کریں اور جو مسلمان ہونا چاہے اس کو نہ روکیں ۔ ولید بن عقبہ نے اس حکم فاروقی کی تعمیل کی، چند روز کے بعد قبیلہ ایاد نے ایک سفارت مدینہ منورہ میں بھیجی کہ ہم سے کوئی رقم جزیہ کے نام سے وصول نہ کی جائے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کی درخواست کو منظور کر کے جزیہ سے دو چند رقم صدقہ کے نام سے وصول کرنے کا حکم وہاں کے عامل کو لکھ بھیجا اور قبیلہ ایاد نے اس کوبخوشی منظور کر لیا، چند روز کے بعد قبیلہ ایاد نے ولیدبن عقبہ کی شکایت کی تو سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے ان کی جگہ فرات بن حیان اور ہند بن عمرو الجملی کو مقرر فرمایا۔ اس جگہ یہ بات قابل تذکرہ ہے کہ صوبہ جزیرہ کی فتح کو بعض مؤرخین نے فتوحات شام میں شمار کیا ہے ، بہرحال عیاض بن غنم اور خالد بن ولید جو عیاض بن غنم کے کمکی بن کر آئے تھے سیّدنا ابوعبیدہ کی افواج، یعنی افواج شام سے آئے تھے، صوبہ جزیرہ کی فتح کو شام و عراق دونوں کی فتوحات میں شامل سمجھنا چاہیے۔ خالدبن ولید کی معزولی: عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا تھا، لیکن اس بات کے سمجھنے میں لوگوں سے بہت غلطی ہوئی ہے، سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے شروع عہد خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حقیقی طور پر معزول نہیں کیا تھا بلکہ ان کا درجہ کسی قدر کم کیا تھا، پہلے خالد بن ولید سپہ سالار اعظم تھے، سیّدنا فاروق اعظم نے انہیں نائب سپہ سالاراعظم بنا دیا تھا، اس ایک درجہ کے ٹوٹنے سے ان کی ذمہ داریوں میں کوئی نمایاں فرق نہ آیا تھا، صرف اس بات کی روک تھام ہو گئی تھی کہ وہ آزادنہ طور پر مسلمانوں کی جمعیت کو کسی خطرے کے مقام میں نہیں لے جا سکتے تھے اور سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی رضامندی اور اجازت ان کو حاصل کرنی پڑتی تھی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا اصل واقعہ ۱۷ ھ کے آخری مہینوں میں ہوا، اور اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہر سردار فوج، ہر عامل، ہر حصہ فوج اور ہر شہر کے حال سے باخبر رہتے تھے، آپ کے پرچہ نویس ہر فوج اور ہر شہر میں موجود ہوتے تھے اور بلاکم وکاست ضروری حالات سے خلیفہ وقت کو آگاہ رکھتے تھے، حالانکہ ہر ایک عامل اور ہر ایک سردار فوج خود بھی اپنے حالات کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجتا رہتا تھا۔