کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 433
ہزار کی جمعیت کے ساتھ تکریت کی جانب روانہ کیا، اسلامی لشکر نے جا کر تکریت کا محاصرہ کر لیا، بڑی خون ریز جنگ کے بعد رومیوں اور ایرانیوں کو شکست فاش حاصل ہوئی، عرب قبائل میں اکثر نے دین اسلام قبول کر لیا، بہت ہی تھوڑے ایرانی اور رومی جان بچا کر بھاگ سکے ورنہ سب وہیں مقتول ہوئے، اس لڑائی میں مال غنیمت اس قدر ہاتھ آیا کہ جب خمس نکال کر لشکر پر تقسیم کیا گیا تو ایک ایک سوار کے حصہ میں تین تین ہزار درہم آئے۔ صوبہ جزیرہ بھی شام و عراق کے درمیان کبھی رومی سلطنت کے زیر اثر ہوتا ، کبھی ایرانی سلطنت کی ماتحتی میں آ جاتا تھا، اہل جزیرہ نے اسلامی فتوحات کے نقشے دیکھ دیکھ کر ہرقل کو لکھا کہ آپ شام کے مشرقی شہروں کی طرف حفاظتی افواج بھیجیں ، ہم سب مل کر آپ کی اور آپ کی فوجوں کی مدد کریں گے، ہرقل نے اہل جزیرہ کی اس درخواست کو تائید غیبی سمجھ کر شام کے مشرقی شہروں کی طرف فوجیں روانہ کیں ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان حالات سے واقف ہو کر ایک طرف سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ اہل جزیرہ کو ان کی حدود سے باہر نہ نکلنے دو، دوسری طرف سیّدنا ابوعبیدہ کو لکھا کہ قیصر کی فوجوں کو حمص و قنسرین کی طرف بڑھنے سے روکو، چنانچہ عراقی و شامی ہر دو افواج نے اپنا اپنا کام عمدگی سے انجام دیا اور تمام صوبہ جزیرہ سیّدنا عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد ایک سرے سے دوسرے سرے تک مفتوح ہو گیا، یہ واقعہ ۱۷ ھ کا ہے۔ قبیلہ ایاد کی واپسی: اسی سال جبکہ پورے صوبہ جزیرہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو وہاں سے قبیلہ ایاد جو عیسائی مذہب رکھتا تھا جلا وطن ہو کر ہرقل کے ملک میں چلا گیا اور وہاں سکونت اختیار کی، فاروق اعظم نے اس بات سے مطلع ہو کر ہر قل کو خط لکھا کہ’’مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ قبائل عرب سے ایک قبیلہ ہمارا ملک چھوڑ کر تمہارے شہروں میں چلا گیا ہے، اگر تم ان عربوں کو اپنے ملک سے نہ نکال دو گے تو ہم ان تمام عیسائیوں کو جو ہمارے ملک میں آباد ہیں نکال کر تمہارے پاس بھیج دیں گے۔‘‘ ہرقل نے اس فاروقی خط کو پڑھتے ہی فوراً قبیلہ ایاد کو جو چار ہزار نفوس پر مشتمل تھا اپنے علاقے سے نکال دیا، وہ شام اور جزیرہ میں واپس آ کر آباد ہو گے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عراق عجم پر حبیب بن مسلمہ کو، اور عراق عرب پر ولید بن عقبہ کو انتظامی افسر مقرر فرمایا تھا، ان عربوں کے واپس آنے پر ولیدبن عقبہ کو لکھا کہ ان لوگوں کو اسلام لانے پر مجبور نہ کرو، اگر وہ جزیہ دینا منظور کریں تو قبول کرلو۔ یہ بات کہ سوائے اسلام کے کوئی درخواست منظور نہ کی جائے گی جزیرۃ العرب مابین مکہ مدینہ اور