کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 428
مہم مرج روم اور فتح بیسان کے بعد قیصر ہرقل نے ارطبون نامی بطریق کو جو نہایت بہادر اور مشہور سپہ سالار تھا مقام اجنادین میں فوجیں جمع کرنے کا حکم دیا، ارطبون نے ایک زبردست فوج تو اپنے پاس مقام اجنادین میں رکھی اور ایک فوج مقام رملہ میں اور ایک بیت المقدس میں تعینات کی، یہ افواج اسلامی حملہ آوروں کی منتظر اور ہر طرح کیل کانٹے سے لیس اور تعداد میں بے شمار تھیں ، سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے جو اس سمت کے حصہ افواج کی سرداری رکھتے تھے بحکم ابوعبیدہ، علقمہ بن حکیم فراسی اور مسرور بن العکی کو بیت المقدس کی طرف، اور ابوایوب المالکی کورملہ کی جانب روانہ کیا، عمروخود ارطبون کے مقابلہ کو اجنادین کی جانب بڑھے، اجنادین میں نہایت سخت معرکہ آرائی ہوئی، یہ لڑائی جنگ یرموک کی مانند تھی، بالآخر ارطبون سیّدنا عمرو رضی اللہ عنہ کے مقابلہ سے شکست کھا کر بیت المقدس کی طرف بھاگا، سیّدنا علقمہ بن حکیم فراسی نے جو بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھے راستہ دے دیا، ارطبون بیت المقدس میں داخل ہو گیا اور اجنادین پر سیّدنا عمرو رضی اللہ عنہ کا قبضہ ہوا۔ فتح بیت المقدس: ارطبون جب بیت المقدس میں داخل ہو گیا تو سیّدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے غزہ سبنطیہ، نابلس، لد، عمواس، بیت جبرین، یافا وغیرہ مقامات پر قبضہ کیا، اور بیت المقدس کے اردگرد کے تمام علاقے پر قابض ہو کر بیت المقدس کی طرف بڑھے، اورمحاصرہ کو سختی سے جاری رکھا، انھی ایام میں سیّدنا ابوعبیدہ شام کے انتہائی اضلاع قنسرین وغیرہ کی فتح سے فارغ ہو کر فلسطین و بیت المقدس کی طرف روانہ ہو چکے تھے، عیسائی قلعہ بند ہو کر نہایت سختی سے محاصرین کی مدافعت اور مقابلہ کررہے تھے، ابوعبیدہ کے آ جانے کی خبر سن کر ان کی ہمت کچھ پست سی ہو گئی اور سپہ سالاراعظم یعنی سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پہنچنے پر انہوں نے صلح کے سلام و پیام جاری کیے، مسلمانوں کی طرف سے صلح میں کوئی تامل ہوتا ہی نہ تھا، مسلمانوں کی طرف سے جو شرائط پیش ہوتے تھے وہ بہت سادہ اور ایسے مقررہ معینہ تھے کہ تمام عیسائی ان سے واقف تھے، لیکن بیت المقدس کے عیسائیوں نے صلح کی شرائط میں ایک خاص شرط کا اضافہ ضروری و لازمی قرار دیا، وہ یہ کہ عہد نامہ خود خلیفہ وقت آکر لکھے۔ ارطبون بطریق بیت المقدس سے نکل کر مصر کی طرف بھاگ گیا تھا، رؤساء شہر اور شرفائے بیت المقدس ہی مدافعت میں استقامت دکھا رہے تھے اور اب شہر کا قبضہ میں آ جانا کچھ بھی دشوار نہ تھا، لیکن سیّدنا ابوعبیدہ بن الجراح نے یہی مناسب سمجھا کہ جہاں تک ہو سکے کشت و خون کا امکان محدود کیا جائے اور جنگ پر صلح کو فوقیت دی جائے۔