کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 427
درخواست کو منظور کر لیا۔
عیسائیوں کی بار بار کی بغاوت و بدعہدی دیکھ کر سیّدنا ابوعبیدہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ان عیسائیوں کے بار بار کے نقض عہد سے بعض اوقات اسلامی لشکر کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا ہوجاتا ہے، ان کے ساتھ کس خاص قسم کا برتاؤ کیا جائے؟
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ عیسائیوں کے بڑے بڑے مرکزی شہروں اور قبوں میں جن کو تم فتح کر چکے ہو ایک ایک فوجی دستہ مدامی طور پر موجود رکھو، ایسے ہر ایک حفاظتی دستہ کو ہم بیت المال سے وظائف اور تنخواہیں دیں گے، فتح انطاکیہ کے بعد اردگرد کے تمام مواضعات و قصبات نے بطیب خاطر مسلمانوں کی اطاعت قبول کی، اور قورس بنج تل عزاز وغیرہ قصبات مع مفصلات بلا جنگ و پیکار مسلمانوں کی اطاعت و قبضہ میں داخل ہو گئے اور فرات تک شام کے تمام شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئے۔
فتح بغراس، مرعش اور حدث:
اب شام کی طرف سے مطمئن ہو کر اور تمام شہروں میں عامل مقرر کرنے اور فوجی دستے متعین فرما دینے کے بعد سیّدنا ابوعبیدہ نے فلسطین کی طرف توجہ فرمائی اور ایک لشکر میسرہ بن مسروق کی سرداری میں مقام بغراس کو روانہ کیا جو علاقہ انطاکیہ میں ایشیائے کوچک کی سرحد پر ایک مقام تھا ، یہاں بہت سے عرب قبائل غسان اور تنوخ ایاد وغیرہ آباد تھے اور عیسائی مذہب رکھنے کی وجہ سے فتح انطاکیہ کا حال سن کر ہرقل کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ میسرہ بن مسروق نے جاتے ہی ان پر حملہ کیا، بڑا بھاری معرکہ ہوا، سیّدنا ابوعبیدہ نے انطاکیہ سے مالک بن اشتر نخعی کو میسرہ کی کمک پر روانہ کیا، اس نئی فوج کو آتے ہوئے دیکھ کر عیسائی گھبرا گئے اور حواس باختہ ہو کر بھاگے، سیّدنا خالد بن ولید ایک چھوٹا سا لشکر لے کر مرعش[1] کی طرف گئے اور عیسائیوں نے جلاوطنی کی اجازت حال کر کے شہر خالد بن ولید کے سپرد کر دیا، اسی طرح ایک لشکر لے کر حبیب بن مسلمہ قلعہ حارث کی طرف گئے اور اس کو فتح کیا۔
فتح قیساریہ(قیرہ) و فتح اجنادین:
انھی ایام میں انطاکیہ و علاقہ انطاکیہ کو اسلامی لشکر فتح کر رہا تھا، دمشق کے عامل سیّدنا یزید بن ابی سفیان نے اپنے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کو حکم فاروق کی بنا پر فوج دے کر قیساریہ کی طرف بھیجا، وہاں سخت معرکہ پیش آیا اور اسی ہزار عیسائی میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے اور قیساریہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔
[1] جبل حارث کوہ ارارات کا پرانا نام ہے مرعش اسی کے دامن میں واقع ہے۔