کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 426
ہو کر قلعہ بند ہوا اور خالد بن ولید نے آگے بڑھ کر قنسرین کا محاصرہ کر لیا، انجام کار قنسرین مفتوح ہوا، اس فتح کا حال جب سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو وہ سیّدنا خالد بن ولید سے بہت خوش ہوئے اور ان کے اختیارات اور فوجی سرداری میں نمایاں اضافہ فرمایا۔ فتح حلب و انطاکیہ: مہم قنسرین سے فارغ ہو کر سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حلب کی جانب کوچ کیا، جب حلب کے قریب پہنچے تو خبر آئی کہ اہل قنسرین نے عہد شکنی اور بغاوت اختیار کی ہے، چنانچہ سیّدنا ابوعبیدہ نے فوراً ایک دستہ فوج کو قنسرین کی طرف روانہ کیا، اہل قنسرین نے محصور ہو کر پھر اظہار اطاعت کیا اور بھاری جرمانہ دے کر اپنے آپ کو بچایا، سیّدنا ابوعبیدہ نے حلب کے قریب پہنچ کر مقام کیا اور سیّدنا عیاض بن غنم نے جو مقدمۃ الجیش کے افسر تھے اپنی ماتحت فوج کو لے کر حلب کا محاصرہ کیا، اہل حلب نے سیّدنا عیاض بن غنم سے اب تک کے مفتوحہ شہروں کی شرائط پر صلح کر کے شہر کو سپرد کر دیا، سیّدنا ابوعبیدہ نے ان شرائط کو جو عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے طے کی تھیں جائز قرار دیا اور اپنے دستخط سے معاہدہ لکھ دیا۔ حلب کو فتح کر کے سیّدنا ابوعبیدہ انطاکیہ کی جانب بڑھے، انطاکیہ قیصر ہرقل کا ایشیائی دارالسلطنت تھا، یہاں ہرقل کے شاہی محلات بنے ہوئے تھے اور ہر قسم کی حفاظت کا سامان جو ایک دارالسلطنت کے لیے ضروری ہے یہاں موجود تھا اسی لیے مختلف مقامات کے مفرور عیسائی بھاگ بھاگ کر انطاکیہ ہی میں پناہ گزیں ہوئے تھے، حلب کے بھی بہت سے عیسائی انطاکیہ میں آ گئے تھے۔ جب مسلمان انطاکیہ کے قریب پہنچے تو عیسائیوں نے انطاکیہ سے نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور شکست کھا کر شہر میں جا گھسے، اسلامی لشکر نے انطاکیہ کا محاصرہ کیا، چند روز کے بعد شہر والوں نے مجبور ہو کر جزیہ کے وعدہ پر صلح کر لی، بعض عیسائی انطاکیہ سے کسی طرف کو خود ہی جلاوطن ہو گئے، مسلمانوں نے ان کے حال سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اس کے بعد خبر پہنچی کہ حلب کے قریب مقام معرہ مصرین میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی لشکر جمع ہو رہا ہے، اس خبر کو سن کر سیّدنا ابوعبیدہ اس طرف کو روانہ ہوئے، وہاں بڑی بھاری جنگ ہوئی، بہت سے عیسائی اور رومی سردار مارے گئے، اور اہل معرہ مصرین نے اہل حلب کی طرح صلح کر لی، یہاں یہ صلح نامہ ابھی مکمل نہیں ہونے پایا تھا کہ انطاکیہ والوں کی بغاوت و بدعہدی کی خبر پہنچی مگر عیاض بن غنم اور حبیب بن مسلمہ موجود تھے انہوں نے لڑ کر عیسائیوں کو پھر مغلوب کیا اور شہر پر قابض ہوگئے، اس بغاوت و بد عہدی کے بعد انطاکیہ والوں نے پھر پہلی شرائط پر ہی صلح کی درخواست کی، سیّدنا ابوعبیدہ نے ان کی اس