کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 423
میں اس فرش پر بیٹھ کر شراب نوشی کیا کرتے تھے، جب یہ تمام چیزیں مدینہ منورہ میں پہنچیں تو لوگ دیکھ کر حیران رہ گئے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تمام اسباب و سامان کو لوگوں میں تقسیم کردیا، فرش کی نسبت عام طور پر لوگوں کی رائے تھی کہ اس کو تقسیم نہ کیا جائے لیکن سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ نہیں اس کو بھی تقسیم کر دیا جائے، چنانچہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیّدنا علی کی رائے سے اس فرش کو بھی کاٹ کاٹ کر لوگوں میں تقسیم کر دیا، سیّدنا علی کے حصہ میں جو ٹکڑا فرش کا آیا تھا وہ بہت نفیس ٹکڑوں میں نہ تھا، تاہم انہوں نے اس کو تیس ہزار دینار کو فروخت کیا۔ سیدنا سعد نے مدائن پر قابض و متصرف ہو کر اپنے اور اہل لشکر کے اہل و عیال کو قادسیہ سے بلوایا اور شاہی ایوانات لوگوں میں تقسیم کر دیے جن میں انہوں نے اپنے اہل و عیال کو ٹھہرایا۔ معرکہ جلولا: جب مدائن پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو یزدجرد مدائن سے بھاگ کر مقام حلوان میں مقیم ہوا، رستم بن فرخ زاد کے بھائی خرزاد بن فرخ زاد نے مقام جلولاء میں لشکر اور سامان حرب بڑی قابلیت اور حوصلے کے ساتھ فراہم کرنا شروع کیا، قلعہ اور شہر کے گرد خندق کھدوائی، گوکھرو بنوا کر مسلمانوں کی آمد اور حملے کے راستوں پر بچھوائے، یہ جنگی تیاری اور فوجی اجتماع اس قدر عظیم و اہم تھا کہ ایک طرف ایرانیوں کی آنکھیں اس طرف لگی ہوئی تھیں تو دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اس کا خاص طور پر خیال تھا، چنانچہ سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یہ تمام کیفیت مدینہ منورہ میں سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس لکھ کر بھیجی۔ دربار فاروقی سے حکم آیا کہ ہاشم بن عتبہ بارہ ہزار کی فوج لے کر جلولاء کی مہم پر روانہ ہوں ، مقدمۃ الجیش سیّدنا قعقاع کو سپرد کیا جائے، معشربن مالک کو میمنہ کی اور عمرو بن مالک کو میسرہ کی سرداری دی جائے اور ساقہ پر عمروبن مرہ کو مقرر کیا جائے، اس حکم فاروقی کے موافق سیّدنا ہاشم مدائن سے روانہ ہو کر چوتھے روز جلولاء پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا، یہ محاصرہ کئی مہینے جاری رہا، ایرانی قلعہ سے نکل کر حملہ آور بھی ہوتے رہتے تھے۔ اس طرح مسلمانوں اور ایرانیوں میں جلولاء کے محاصرہ کے ایام میں بہت سے معرکے ہوئے اور ہر معرکہ میں ایرانی مغلوب ہوتے رہے، جلولاء میں لاکھوں ایرانی جنگ جو موجود تھے، مسلمانوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز نہ تھی، اپنی جمعیت کی کثرت اور سامان حرب کی فراوانی پر اعتماد کر کے ایرانیوں نے خوب جی توڑ کر مقابلہ کیا مگر آخر مسلمانوں کے مقابلہ میں ناکام و نامراد ثابت ہوئے، ایک لاکھ ایرانی اس معرکہ میں مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے، تین کروڑ کا مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔