کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 421
بحرظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے سیدنا سعد کو اب اس بات کا خیال تھا کہ جس قدر جلد ہو مدائن پر قبضہ کریں ، لیکن دریائے دجلہ بیچ میں حائل تھا اور اس کا پایاب عبور کرنا سخت دشوار تھا، ایرانیوں نے بہرہ شیر سے بھاگتے ہوئے پل کو بالکل مسمار اور منہدم کر دیا تھا، دور دور تک کوئی کشتی بھی نہیں چھوڑی تھی، دوسرے کنارے پر ایرانی فوج بھی متعین تھی جو عبور دریا سے مانع تھی۔ دوسرے روز سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے گھوڑے پر سوار ہو کر اور تمام فوج کی کمر بندی کرا کر فرمایا کہ تم میں کون ایسا بہادر سردار ہے جواپنی جمعیت کے ساتھ اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ ہم کو دریا کے عبور کرنے کے وقت دشمن کے حملہ سے بچائے گا، سیّدنا عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اس خدمت کی ذمہ داری قبول کی اور چھ سو تیر اندازوں کی ایک جماعت لے کر دریائے دجلہ کے اس کنارے ایک اونچے مقام پر جا بیٹھے، سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ((نستعین باللہ و نتوکل علیہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم)) (’’ہم اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ نہ کسی میں (نیکی کرنے کی) قوت ہے نہ (برائی سے بچنے کی) طاقت مگر اللہ کی توفیق سے، جو سب سے بلند مرتبہ اور بڑائی والا ہے۔‘‘)…کہہ کر اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا، ان کی تقلید میں دوسروں نے بھی جرائت سے کام لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لشکر اسلام دجلہ کی طوفانی موجوں کا مقابلہ کرتا ہوا دوسرے کنارے کی طرف متوجہ ہوا، یہ سیلاب لشکر جب نصف سے زیادہ دریا کو عبور کر چکا تو اس طرف سے ایرانی تیر اندازوں نے تیر بازی شروع کی ادھر سے عاصم اور ان کی جماعت نے ایرانی تیر اندازوں پر اس زور و قوت کے ساتھ تیر پھینکے کہ بہت سے ایرانی مقتول و مجروح ہوئے اور اس بلائے بے درماں سے اپنی جان بچانے کی تدبیروں میں مصروف ہو کر لشکر اسلام کو عبور دریا سے نہ روک سکے مسلمانوں نے اس طرف پہنچ کر ایرانیوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ فتح مدائن: یزدجرد مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے اہل و عیال اور خزانوں کو مدائن سے روانہ کر چکا تھا، تاہم قصرا بیض (شاہی محل) اور دارالسلطنت میں مال و دولت کی کمی نہ تھی، اسلامی لشکر کے دریا عبور کر لینے کا حال سن کر یزدجرد بھی مدائن سے چل دیا، مسلمانوں نے شہر کی مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونا شروع کیا، خود باشندگان شہر نے شاہی محلات کی لوٹ مار مسلمانوں کے پہنچنے اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے شروع کر کر دی تھی، سیّدنا سعد قصرا بیض میں داخل ہوئے اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ آیتیں نکلیں :