کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 42
میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کسی ایک اعلیٰ اور طاقتور ہستی کو اپنا مرکز اور مقتدا بنا کر رہے اور یہی فطری تقاضا ہے جو اس کو توحید باری تعالیٰ کی طرف رہبری کرتا اور تمام معبودان باطلہ سے منحرف بنا کر اکیلے اللہ کی پرستش پر آمادہ کرتا ہے، شیطانی فریب کاریوں میں سب سے بڑی فریب کاری یہ تھی کہ انسان نے حکومت و سلطنت کے لیے قابلیت اور صفات حسنہ کی شرط کو فراموش کر کے وراثت اور نسب کے تعلق کو حکومت اور بادشاہی کے لیے بطور شرط لازم تسلیم کر لیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے شخصوں کو جو بادشاہت اور حکومت کے حق دار نہ تھے محض بادشاہ کی اولاد ہونے کے سبب بادشاہ بننے اور مستحق بادشاہت لوگوں کو ذلیل و خوار بنانے کا موقع ملنے لگا، نوع انسانی کی اسی غلطی نے دنیا میں بڑی بڑی خرابیاں اور ہنگامہ آرائیاں برپا کیں اور بنی آدم کو اپنی اس غلطی کے بڑے بڑے خمیازے بھگتنے پڑے۔
قرآن کریم نے نازل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہو کر دنیا کی اس عالمگیر گمراہی اور نوع انسانی کی اس عظیم الشان غلط روی کا علاج کیا اور جامع جمیع کمالات انسانیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خود حکومت کی فرمانروائی کر کے فرائض رسالت و نبوت کے علاوہ دنیوی باشاہت و حکومت کا بھی بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور نوع انسانی کو بتایا کہ بادشاہ کے فرائض کیا ہوتے ہیں اور اس کے اختیارات کی حدود کیا ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے اولین فیض یافتہ اور بہترین تربیت حاصل کردہ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے موافق بہترین شخص یعنی مستحق حکومت اور قابل فرماں روائی انسان کا انتخاب کیا اور عملی طور پر پہلی مرتبہ یہ شیطانی طلسم ٹوٹا کہ حکومت و فرماں روائی کے لیے وراثت قابل لحاظ ہے۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا انتخاب بھی جائز استحقاق اور اسی صحیح اصول پر ہوا، ان کے بعد سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا انتخاب اگرچہ وراثت اور نسب کے تعلقات کا لحاظ کیے بغیر ہوا مگر مسلمانوں کے بعض طبقات اور بعض افراد کو اس انتخاب میں قدرے انقباض رہا اور خود سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں اور ہم قبیلہ لوگوں کی رعایت زیادہ رکھی چنانچہ ان کا زمانہ فتن سے خالی نہ رہا۔[1] پس کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت رسول جس طرح ۲۳ سال تک اپنی
[1] جناب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اب ہم اعتراض نہیں کر سکتے۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہدف تنقید بنانے اور ان پر طعن و تشنیع کرنے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ہمارے لیے خاموشی ہی بہتر اور ضروری ہے۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں یا ان کے بعد اگر فتنے برپا ہوئے تو وہ دشمنانِ اسلام اور منافقین کی سازشوں کی وجہ سے برپا ہوئے۔ ان میں خلفاء یا صحابہ رضی اللہ عنہم کا کوئی قصور نہیں ۔ دشمنان اسلام اور منافقین تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی اسلام کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں مصروف تھے اور منافقین نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی فتنے برپا کرنے کی کوشش کیں جیسے واقعہ افک! تو کیا (معاذ اللہ) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک بھی شکوک و شبہات وغیرہ کا شکار ہو جائے گا یقینا ہرگز نہیں !