کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 417
طرح شام تک یکے بعد دیگرے یہ دستے لشکر اسلام میں داخل ہوتے، اور ایرانی اس طرح پیہم کمکی دستوں کی آمد دیکھ کر خوف زدہ ہوتے رہے۔ آج بھی ہاتھیوں کا فتنہ لشکر اسلام کے لیے بہت سخت تھا لیکن مسلمانوں نے ایک نئی تدبیر یہ کی کہ اونٹوں پر بڑی بڑی جھولیں ڈالیں ، وہ بھی ہاتھیوں کی طرح مہیب نظر آتے اور ایرانیوں کے گھوڑے ان کو دیکھ دیکھ کر بدکنے لگے، جس قدر ہاتھیوں سے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچتا تھا، اسی قدر ایرانی لشکر کو ان مصنوعی ہاتھیوں سے نقصان پہنچنے لگا، آج سیّدنا قعقاع نے بہت سے ایرانی سرداروں اور مشہور شہسواروں کو قتل کیا، شام تک بازار جنگ گرم رہا، آج ایک ہزار مسلمان اور دس ہزار ایرانی میدان جنگ میں کام آئے۔ تیسرے روز سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نماز فجر سے فارغ ہوتے ہی اوّل شہداء کی لاشوں کے دفن کرنے کا انتظام کیا، مجروحوں کو عورتوں کے سپرد کیا گیا کہ وہ مرہم پٹی کریں ، اس کے بعد دونوں فوجیں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں ، آج بھی ایرانیوں نے ہاتھیوں کو آگے رکھا لیکن قعقاع و عاصم نے مل کر فیل سفید پر جو تمام ہاتھیوں کا سردار تھا حملہ کیا اور اس کو مار ڈالا فیل سفید کے مارے جانے کے بعد ایک دوسرے ہاتھی پر حملہ ہوا تو وہ میدان سے اپنی جان بچا کر بھاگا، اس کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر دوسرے ہاتھیوں نے بھی تقلید کی اور اس طرح آج ہاتھیوں کا وجود بجائے اس کے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچاتا خود ایرانیوں کے لیے نقصان رساں ثابت ہوا۔ آج بھی بڑے زور کی لڑائی ہوئی اور صبح سے شام تک جاری رہی، غروب آفتاب کے بعد تھوڑی دیر کے لیے دونوں فوجیں ایک دوسرے سے جدا ہوئیں اور پھر فوراً مستعد ہو کر ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہو گئیں ، مغرب کے وقت سے شروع ہو کر صبح تک لڑائی جاری رہی، تمام رات لڑائی کا شور و غل اور ہنگامہ برپا رہا، نہ پوری کیفیت سیّدنا سعد کو معلوم ہو سکتی تھی نہ رستم کو، غرض یہ رات بھی ایک عجیب قسم کی رات تھی، سپہ سالار اسلام سیّدنا سعد رات بھر دعا میں مصروف رہے، آدھی رات کے بعد انہوں نے میدان جنگ کے شور و غل میں سیّدنا قعقاع کی آواز سنی کہ وہ اپنے لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ سب سمٹ کر قلب پر حملہ کرو اور رستم کو گرفتار کر لو، اس آواز نے نہ صرف سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ کو تسکین دی بلکہ تمام مسلمانوں میں از سر نو طاقت پیدا کر دی، تمام دن اور تمام رات لڑتے ہوئے غازیان اسلام تھک کر چور چور ہو گئے تھے، مگر اب پھر ہر قبیلہ کے سردار نے اپنی اپنی قوم کو مقابلہ کے لیے برانگیختہ کیا، بڑے زور شور سے تلوار چلنے لگی۔