کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 412
ضرور قتل کر دیتا، پھر اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ ایک مٹی کی ٹوکری بھر کر لاؤ اور جو شخص ان میں سردار ہے اس کے سر پر رکھ دو اور اسی حالت میں اس کو مدائن سے باہر نکال دو، پھر بولا کہ رستم بہت جلد تم سب کو قادسیہ کی خندق میں دفن کر دے گا، اتنے میں مٹی کی ٹوکری آ گئی، سیّدنا عاصم رضی اللہ عنہ نے فوراً اٹھ کر وہ ٹوکری اپنے کاندھے پر اٹھالی اور کہا کہ میں اس وفد کا سردار ہوں ، یہ سب حضرات یزد جرد کے دربار سے نکلے اور اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر مٹی کی وہ ٹوکری لیے ہوئے سیّدنا سعد بن ابی وقاص کے پاس پہنچے اور کہا کہ ملک ایران کی فتح مبارک ہو، خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی مٹی ہم کو عطا کی ہے، سیّدنا سعد بن ابی وقاص بھی اس تفاول (یعنی نیک فال لینا) سے بہت ہی خوش ہوئے۔ ان سفراء کی واپسی کے بعد دربار ایران سے رستم کے پاس ساباط میں تازہ احکام پہنچے اور کمکی سردار بھی روانہ کیے گئے، ساٹھ ہزار فوج کا بڑا حصہ خاص رستم کے زیرکمان تھا، مقدمۃ الجیش کا سردار جالینوس تھا، جس کے ہمراہ چالیس ہزار کا لشکر تھا، بیس ہزار فوج ساقہ میں تھی، میمنہ پر تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ ہرمزان، اور میسرہ پر تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ مہران بن بہرام رازی تھا، اس طرح کل ایرانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار تک پہنچ گئی،اس کے علاوہ ایک سو جنگی ہاتھی قلب میں رستم کے ساتھ تھے، پچھتر ہاتھی میمنہ میں اور پچھتّر میسرہ میں ، بیس ہاتھی مقدمۃ الجیش میں اور تیس ساقہ میں تھے، اس ترتیب و سامان کے ساتھ رستم ساباط سے روانہ ہو کر مقام کوثا میں پہنچا اور وہاں خیمہ زن ہوا۔ قادسیہ اور مدائن کے درمیان تیس چالیس کوس کا فاصلہ تھا، ایرانی اور اسلامی لشکروں کا فاصلہ اب بہت ہی کم رہ گیا تھا، طرفین سے چھوٹے چھوٹے دستے ایک دوسرے پر چھاپہ مارنے اور سامان رسد لوٹنے کے لیے ہر روز روانہ ہوتے رہتے تھے، رستم لڑائی کو ٹالنا چاہتا تھا، اس لیے اس نے مدائن سے قادسیہ تک پہنچنے میں چھ مہینے صرف کر دیے، مقام کوثا سے روانہ ہو کر رستم قادسیہ کے سامنے پہنچا اور مقام عتیق میں خیمہ زن ہوا، دربار ایران سے بار بار رستم کے پاس تقاضوں کے پیغام آتے تھے کہ جلد عربوں کا مقابلہ کرو لیکن رستم یہ چاہتا تھا کہ بلا مقابلہ کام چل جائے تو اچھا ہے، چنانچہ اس نے قادسیہ پہنچ کر سیّدنا سعد بن ابی وقاص کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنے کسی سفیر کو ہمارے پاس بھیج دو تاکہ ہم اس سے مصالحت کی گفتگو کریں ۔ سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر رستم کے پاس روانہ کیا، رستم نے بڑے تکلف اور شان و تجمل کے ساتھ دربار کیا، سونے کا تخت بچھوایا اور اس کے چاروں طرف دیباو حریر اور رومی قالینوں کا فرش کرایا، تکیوں اور شامیانوں کی جھالریں سچے موتیوں کی تھیں ، غرض سیّدنا ربعی