کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 411
پہنچے، وہاں یزدجرد نے ان سفیروں کے آنے کی خبر سن کر دربار کو خوب آراستہ کیا، جب یہ اسلامی سفراء دربار میں اپنی سادہ و سپاہیانہ وضع کے ساتھ داخل ہوئے تو تمام دربار ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا، اوّل یزدجرد نے ان سے معمولی سوالات کیے اور ان کے باصواب جواب پا کر اس نے دریافت کیا کہ تم لوگوں کو ہمارے مقابلہ کی جرائت کیسے ہوئی اور تم کس طرح یہ بات بھول گئے کہ تمہاری قوم دنیا میں ذلیل و احمق سمجھی جاتی ہے، کیا تم اس بات کو بھی بھول گئے ہو کہ جب کبھی تم لوگوں سے کوئی سرکشی یا بغاوت دیکھی جاتی تھی تو ہم اپنی سرحد کے عاملوں اور صوبیداروں کو حکم دے دیا کرتے تھے کہ تم کو سیدھا کر دیں ، چنانچہ وہ تم کو ٹھیک بنا دیا کرتے تھے۔ یہ سن کر سیّدنا نعمان بن مقرن نے جواب دیا کہ ہم دنیا سے بت پرستی اور شرک مٹانے کی کوشش کرتے اور تمام دنیا کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی کے ذریعہ انسان سعادت انسانی حاصل کر سکتا ہے، اگر کوئی شخص اسلام کو قبول نہیں کرتا تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی حفاظت و سرپرستی میں سپرد کر دے اور جزیہ ادا کرے، لیکن اگر وہ اسلام اور ادائے جزیہ دونوں باتوں سے انکار کرتا ہے تو اس کے اور ہمارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔ قیس بن زرارہ کی تقریر : یزدجرد اس گفتگو کو سن کر برافروختہ ہوا، لیکن ضبط کر کے بولا کہ تم لوگ محض وحشی اور جنگلی لوگ ہو، تمہاری تعداد بھی کم ہے، تم ہمارے ملک کے کسی حصہ کی طمع نہ کرو، ہم تم پر اس قدر احسان کر سکتے ہیں کہ تم کو کھانے کے لیے غلہ اور پہننے کے لیے کپڑا دے دیں ، اور تمہارے اوپر کوئی ایسا حاکم مقرر کر دیں ، جو تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے، اس بات کو سن کر سیّدنا قیس بن زرارہ فوراً آگے بڑھے اور کہا کہ یہ لوگ جو تمہارے سامنے موجود ہیں ، رؤساء و شرفا عرب ہیں اور شرفائے عرب ایسی لغو باتوں کا جواب دینے سے شرم کرتے ہیں ، میں تمہاری باتوں کا جواب دیتا ہوں اور یہ سب میری باتوں کی تصدیق کرتے جائیں گے، سنو! تم نے جو عرب کی حالت اور اہل عرب کی کیفیت بیان کی، درحقیقت ہم اس سے بھی بہ درجہا زیادہ خراب و ناقص حالت میں تھے، لیکن خدائے تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل و احسان کیا کہ ہماری ہدایت کے لیے نبی بھیجا جس نے ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت کی اور حق و صداقت کے دشمنوں کو مغلوب و ذلیل کیا اور دنیا میں فتوحات حاصل ہونے کا ہم کو وعدہ دیا ، پس تمہارے لیے اب مناسب یہی ہے کہ تم ہم کو جزیہ دینا منظور کرو یا اسلام قبول کرو، ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کر دے گی۔ یزدجرد اس کلام کو سن کر آپے سے باہر ہو گیا، اس نے کہا اگر سفیروں کا قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم کو