کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 41
طالوت کی بادشاہت کا حال سن کر اعتراض کیا تو جواب ملا کہ ﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ﴾ (البقرۃ : ۲/۲۴۷) یعنی خدائے تعالیٰ نے طالوت کو تمہارے اوپر بادشاہت کرنے کے لیے منتخب فرما لیا ہے اور طالوت کو علم اور جسم میں فوقیت حاصل ہے‘‘ پھر آگے داؤد علیہ السلام کی نسبت فرمایا: ﴿وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ﴾’’اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اسے علم دیا۔‘‘ (البقرۃ : ۲۵۱)…)تاریخی مطالعہ سے جہاں تک پتہ چلتا ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو کسی قوم کی عصبیت کا مرکز بننے اور علمی و جسمانی طور پر فوقیت حاصل کرنے کا موقع ملا وہ فوراً اس قوم کا فرمان روا اور سلطان تسلیم کرلیا گیا، اب سے تین ہزار سال پیشتر تک قوت جسمانی اور پہلوانی و بہادری ہی حکومت و سلطنت حاصل کرنے کے لیے ضروری چیز سمجھی جاتی تھی، جس کے ساتھ قوت دماغی بھی ایک ضروری چیز تھی۔ اس کے بعد بتدریج نسل انسان میں جوں جوں دوسرے صفات پیدا ہوتے گئے اسی مناسبت سے بادشاہوں کی صفات اور بادشاہت کی شرائط میں اضافہ ہوتا گیا، غرض کہ دنیا میں ہمیشہ بادشاہ کا مفہوم بہترین اور قیمتی انسان رہا ہے اور فتنہ و فساد کے ہنگامے قتل و غارت کے حوادث اسی وقت رونما ہوئے جب کہ غیر مستحق یعنی ناقابل بادشاہت شخص کو تخت حکومت پر جگہ ملی۔ اس کلیہ میں کسی جگہ استثناء نہ پاؤ گے اور اس حقیقت کے خلاف ہرگز دوسری بات ثابت نہ کر سکو گے۔
ہر ایک انسان چونکہ اپنی پیدائش اور فطرت میں یکساں حقوق اور یکساں مرتبہ رکھتا ہے، لہٰذا اکتسابی صفات اور سعی و کوشش کے نتائج سے جو فضائل ہو سکتے ہیں وہی انسان کو حکومت و فرمانروائی کا مقام دلا سکتے ہیں ۔ ﴿لَیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی﴾ (’’بے شک انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘ (النجم : ۵۳/۳۹)…) ہربزرگ خاندان اپنی صفات حسنہ کی وجہ سے اپنے خاندان والوں کا فرماں روا اور بادشاہ ہے ، ہر گاؤں کا نمبر دار اپنے گاؤں کا فرماں روا اور بادشاہ ہے اور یہ نوع انسان کی ابتدائی زمانہ کی حکومت وسلطنت کے نمونے ہیں جو آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ، اور ہم ان میں کوئی نقص اور سقم نہیں نکال سکتے، ہاں اگر نقص اور سقم بتایا جاسکتا ہے تو اسی حالت میں جب کہ افراد خاندان میں سے غیر مستحق اور ناقابل شخص کو بزرگ خاندان مانا گیا، یا گاؤں کا نمبردار، برادری کا چودھری، محلہ کا میر محلہ اس گاؤں اس برادری، اس محلہ کا بہترین شخص نہ ہو۔
شخصیت اورجمہوریت:
انسانی نسل جہاں ایک طرف اشرف المخلوقات اور مخدوم کائنات ہے، دوسری طرف اس کی فطرت