کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 409
فرما دیا تھا، اس وقت آٹھ ہزار فوج سیّدنا مثنی کے پاس موجود تھی۔ سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیّدنا سعد بن ابی وقاص کے لیے راستہ اور راستے کی منزلیں بھی خود مقرر فرما دی تھیں اور روزانہ ہدایات بھیجتے رہتے اور لشکر اسلام کی خبریں منگاتے رہتے تھے، جب سیّدنا سعد بن ابی وقاص مقام ثعلبہ سے مقام سیراف کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں قبیلہ بنی اسد کے تین ہزار جوان جو سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم نامہ کے موافق سر راہ گزر منتظر تھے سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ کی فوج میں شریک ہو گئے، مقام سیراف میں پہنچے تو یہاں اشعث بن قیس حکم فاروق کے موافق اپنے قبیلہ کے دو ہزار غازیوں کو لے کر حاضر اور لشکر سعد میں شامل ہوئے، اسی جگہ سیّدنا مثنی کے بھائی معنی بن حارثہ شیبانی سیّدنا سعد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ تمام ضروری ہدایتیں جو سیّدنا مثنی نے فوت ہوتے وقت فوج اور دشمن کی جنگ کے متعلق بیان فرمائی تھیں بیان کیں ، اسی جگہ وہ آٹھ ہزار کا لشکر بھی جو سیّدنا مثنیٰ کے پاس تھا لشکر سعد میں آ کر شامل ہو گیا، سیّدنا سعد بن ابی وقاص نے اس جگہ لشکر اسلام کا جائز لیا، تو بیس اور تیس ہزار کے درمیان تعداد تھی، جس میں تین سو صحابی ایسے تھے جو بیعت الرضوان میں موجود تھے اور ستر صحابی ایسے تھے جو غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ابھی مقام سیراف میں مقیم تھے کہ فاروق اعظم کا پیغام ان کے نام پہنچا کہ قادسیہ کی طرف بڑھو اور قادسیہ میں پہنچ کر اپنے مورچے ایسے مقام پر قائم کرو کہ تمہارے سامنے فارس کی زمین ہو اور تمہارے پیچھے عرب کے پہاڑ ہوں ، اگر اللہ تعالیٰ تم کو فتح نصیب کرے تو جس قدر چاہو بڑھتے چلے جاؤ لیکن خدانخواستہ معاملہ برعکس ہو تو پہاڑ پر آ کر ٹھہرو اور پھر خوب چوکس ہو کر حملہ کرو، سیّدنا سعد نے اس حکم کے موافق مقام سیراف سے کوچ کیا اور سیّدنا زبیر بن عبداللہ بن قتادہ کو مقدمۃ الجیش کا، عبداللہ بن المعتصم کو میمنہ کا، شرجیل بن السمط کندی کو میسرہ کا، عاصم بن عمر تمیمی کو ساقہ کا سردار مقرر کیا، لشکر سعد میں سیّدنا سلمان فارسی سامان رسد کے افسر اعلیٰ تھے، عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی قاضی و خزانچی تھے، ہلال ہجری مترجم اور زیاد بن ابی سفیان کاتب یا سکریٹری تھے، سیّدنا سعد اپنا لشکر لیے ہوئے مقام سیراف سے قادسیہ کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں مقام عذیب آیا جہاں ایرانیوں کا میگزین تھا، اس پر قبضہ کرتے ہوئے قادسیہ پہنچے، قادسیہ پہنچ کر لشکر فارس کے انتظار میں قریباً دو ماہ کا انتظار کرنا پڑا، اس زمانہ میں لشکر اسلام کو جب سامان رسد کی ضرورت ہوتی تو ایرانی علاقوں پر مختلف دستے چھاپے مارتے اور ضروری سامان حاصل کرتے۔