کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 407
کے مقابلے کی ایک تازہ روح پیدا ہوگئی۔ جن صوبوں اور شہروں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا، ان میں بغاوت اور سرکشی کے طوفان برپا ہونے لگے۔ ایرانی چھاؤنیاں فوجوں سے پُر ہوگئیں ۔ ایرانی قلعے سب مضبوط کردیے گئے۔ ایرانیوں کا سہارا پاکر بہت سے علاقے جو مسلمانوں کے قبضے میں تھے، باغی ہو ہوکر ایرانیوں کا دم بھرنے لگے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا خود ایرانیوں کے مقابلہ پر آمادہ ہونا: فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ حالت مدینہ منورہ میں ذیقعدہ کے مہینے میں معلوم ہوئی۔ آپ نے اسی وقت ایک حکم تو مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے نام بھیجا کہ ربیعہ اور مضر کے قبائل کو جو عراق اور مدینہ کے درمیان نصف راستے سے اس طرف آباد ہیں ، خود اپنے پاس طلب کرو اور اپنی جمعیت کو اس طرح طاقتور بناؤ اور مخدوش علاقے کو خالی کرکے سرحد عرب کی طرف سمٹ آؤ۔ ساتھ ہی اپنے تمام عاملوں کے نام احکام روانہ کیے کہ ہر قبیلے سے جنگجو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے بھیجے جائیں ۔ ان احکام کی روانگی کے بعد آپ حج بیت اللہ کے لیے مدینہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو ملک کے ہر حصے سے لوگوں کے گروہ آنے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام میدان مدینہ آدمیوں سے پر نظر آنے لگا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو ہر اوّل کا سردار مقرر فرمایا۔ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو میمنہ پر اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو میسرہ پر مقرر فرما کر خود سپہ سالار بن کر اور فوج لے کر روانگی کا عزم فرمایا۔ علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور فو ج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور چشمہ ضرار پر آکر قیام کیا۔ اس تمام فوج میں لڑائی کے لیے بڑا جوش پیدا ہوگیا تھا کیونکہ خلیفہ وقت خود اس فوج کا سپہ سالار تھا۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا خود ایران جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا خود ایران جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تمام سرداران فوج اور عام لشکری لوگوں کو ایک جلسہ عظیم میں مخاطب کرکے مشورہ طلب کیا تو کثرت رائے خلیفہ وقت کے ارادے کے موافق ظاہر ہوئی یعنی لشکری لوگوں نے خلیفہ وقت کے بہ حیثیت سپہ سالار ملک ایران کی طرف جانے کو مناسب سمجھا لیکن عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس رائے کو ناپسند کرتا ہوں ۔ خلیفہ وقت کا خود مدینہ سے تشریف لے جانا خطرہ سے خالی نہیں کیونکہ اگر کسی سردار کو میدان جنگ میں ہزیمت حاصل ہو تو خلیفہ وقت بآسانی اس کا تدارک کرسکتے ہیں ، لیکن اللہ نہ کرے کہ خود خلیفہ وقت کو میدان جنگ میں کوئی چشم زخم پہنچے تو پھر مسلمانوں کے کام کا سنبھلنا دشوار ہوجائے گا۔ یہ