کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 406
اس طرف آؤ یا ہم کو دریائے فرات کے عبور کرنے کا موقع دو کہ ہم اس طرف آ کر صفوف آراستہ کریں ، سیّدنا مثنی چونکہ گزشتہ جنگ میں دریا کے عبور کرنے کا تلخ تجربہ دیکھ چکے تھے، لہٰذا انہوں نے جواباً کہلا بھیجا کہ تم ہی فرات کو عبور کر کے اس طرف آ جاؤ، چنانچہ مہران اپنی تمام ایرانی افواج اور جنگی ہاتھیوں کو لے کر دریا کے اس طرح آیا، اور سب سے آگے پیادوں کو رکھ کر ان کے پیچھے ہاتھیوں کی صفوں کو کھڑا کیا، جن پر تیر انداز سوار تھے، دائیں ، بائیں سواروں کے دستے تھے۔ ادھر سے اسلامی فوج بھی مقابلہ کے لیے صف بستہ ہو کر تیار ہو گئی، ایرانیوں نے حملہ کیا، مسلمانوں نے ان کا بڑی پامردی و جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا، طرفین سے خوب خوب داد شجاعت دی گئی، بالآخر لشکر ایران کو مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست حاصل ہوئی، جب ایرانیوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا تو مثنیٰ بن حارثہ سپہ سالار اسلام نے دوڑ کر پل کو توڑ دیا تاکہ ایرانی بہ آسانی دریا کو عبور کر کے نہ بھاگ سکیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے ایرانی قتل اور بہت سے غرق دریا ہوئے، مہران ہمدانی میدان جنگ میں مارا گیا، ایرانی لشکر کے قریباً ایک لاکھ آدمی (بروایت ابن خلدون) اس لڑائی میں مقتول ہوئے، اور مسلمانوں کے لشکر سے صرف سو آدمی شہید ہوئے، ایرانی لشکر سے جو لوگ بچ کر بھاگے ان کا تعاقب مسلمانوں نے مقام ساباط تک کیا۔ اس لڑائی کے بعد سواد سے دجلہ تک کا تمام علاقہ مسلمانوں کے قبضہ و تصرف میں آگیا، یہ لڑائی ماہ رمضان ۱۳ھ میں ہوئی۔ بویب کی شکست: مہران کے قتل اور لشکر عظیم کی بربادی کا حال معلوم صرف دربار ایران بلکہ تمام ملک ایران میں کہرام برپا ہو گیا، لڑائی کے اس نتیجہ کا حال سن کر کہ ایک لاکھ ایرانی اور ایک سو عرب مقتول ہوئے، ہر شخص حیران ہوجاتا تھا۔ غرض ایرانیوں کے دلوں پر عربوں کی بہادری کا زبردست سکہ بیٹھ گیا۔ اس وقت اگرچہ ایران کے تمام امور سلطنت رستم بن فرخ زاد کے ہاتھ میں تھے لیکن تخت ایران پر برائے نام ایک عورت جو شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی، تخت نشین تھی۔ اس شکست فاش اور نقصان عظیم کا حال سن کر ہر ایک شخص کی زبان پر یہ فقرہ جاری تھا کہ عورت کی سلطنت میں فوج کا فتح مند ہونا دشوار ہے۔ چنانچہ تمام رؤسا ملک اور امرائے دربار نے شاہی خاندان کے ایک نوجوان یزدجرد کو تلاش کیا اور اس عورت کو تخت سے اتار کر یزد جرد کو تخت سلطنت پر بٹھایا۔ دربار میں رستم اور فیروز دو سردار بہت قابو یافتہ اور بااثر، نیز ایک دوسرے کے مخالف اور رقیب تھے۔ ان دونوں میں مصالحت پیدا کی گئی۔ یزدجرد کی عمر تخت نشینی کے وقت ۲۱ سال تھی۔ یزدجرد کے تخت نشین ہوتے ہی امراء و رؤسا نے اپنی مخالفتوں کو فراموش کرکے ملک و سلطنت کی حفاظت و خدمت کے لیے کمر باندھی اور تمام وہ صوبے دار جو دربار ایران کی بدانتظامیوں کے سبب سے بددل ہورہے تھے، یک لخت چستی و مستعدی کا اظہار کرنے لگے اور سلطنت ایران میں عربوں