کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 404
کے درمیان بہت ہی تھوڑا سا میدان تھا جو لشکر اسلام کے سے کھچا کھچ بھر گیا، بہرحال صفیں آراستہ کر کے فریقین نے میدان کارزار گرم کیا، بہمن جادویہ نے ہاتھیوں کی صف کو لشکر کے آگے رکھا، ان ہاتھیوں پر تیر انداز بیٹھے ہوئے تھے اور وہ لشکر اسلام پر تیر اندازی کر رہے تھے، مسلمانوں کے گھوڑوں نے اس سے پیشتر کبھی ہاتھی نہ دیکھے تھے، لہٰذا جب مسلمان حملہ آور ہوتے ان کے گھوڑے ہاتھیوں کو دیکھ کر بدکتے اور بے قابو ہو کر ادھر ادھر بھاگتے، لڑائی کا یہ عنوان دیکھ کر ابوعبید نے حکم دیا کہ پیادہ ہو کر حملہ کرو، یہ حملہ بڑی جاں بازی و مردانگی کے ساتھ کیا گیا، لیکن ہاتھیوں نے جب اسلامی صفوف پر حملہ کرنا اور لوگوں کو کچلنا شروع کیا تو مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہونے لگیں ، ابوعبید رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لوگوں کو جرائت دلائی اور کہا کہ ہاتھیوں کی سونڈوں کو تلوار سے کاٹو، یہ کہہ کر انہوں نے خود ہاتھیوں پر حملہ کیا اور یکے بعد دیگرے کئی ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ کر ان کے اگلے پاؤں تلوار کی ضرب سے کاٹے، اور اس طرح ہاتھیوں کو گرا کر ان کے سواروں کو قتل کیا۔ اپنے سپہ سالاروں کی یہ بہادری دیکھ کر دوسروں کو بھی جرائت ہوئی اور مسلمانوں نے ایرانی ہاتھیوں کے مقابلہ میں شیرانہ حملے کیے، عین اس حالت میں کہ معرکہ کارزار تیزی سے گرم تھا، سیّدنا ابوعبیدہ بن مسعود سپہ سالار لشکر اسلام پر جنگی ہاتھی نے حملہ کیا،ابوعبید رضی اللہ عنہ نے نہایت چابک دستی سے تلوار کا وار کیا اور ہاتھی کی سونڈ کٹ کر الگ جاپڑی لیکن ہاتھی نے اسی حالت میں آگے بڑھ کر ان کو گرا دیا، اور سینے پر پاؤں رکھ دیا، جس سے ان کی پسلیاں چور چور ہو گئیں ، ابوعبیدہ کی شہادت کے بعد ان کے بھائی حکم نے فوراً آگے بڑھ کر علم اپنے ہاتھ میں لیا لیکن وہ بھی ہاتھی پر حملہ آور ہو کر ابوعبیدہ کی طرح شہید ہوئے، ان کے بعد قبیلہ بنو ثقیف کے اور چھ آدمیوں نے یکے بعد دیگرے علم ہاتھ میں لیا اور جام شہادت نوش کیا، آٹھویں شخص جنہوں نے علم کو سنبھالا مثنی بن حارثہ تھے انہوں نے علم ہاتھ میں لیتے ہی مدافعت اور استقامت میں جرائت کا اظہار کیا، لیکن لوگ اپنے سات سرداروں کو یکے بعد دیگرے قتل ہوتے دیکھ اور ہاتھیوں کی حملہ آوری کی تاب نہ لا کر فرار پر آمادہ ہو چکے تھے ان بھاگنے والوں کو روکنے کے لیے عبداللہ بن مرثد ثقفی نے جا کر پل کے تختے توڑ دیئے اور رسے کاٹ دیئے اور کہا کہ لوگو! اب بھاگنے کا راستہ بھی بند ہو گیا، لہٰذا مرو جس طرح تمہارے بھائی اور تمہارے سردار شہید ہو چکے ہیں ، پل کے ٹوٹنے سے یہ خرابی واقع ہوئی کہ لوگ دریا میں کودنے اور پانی میں غرق ہونے لگے، سیّدنا مثنی بچی کچھی فوج سمیٹ کر اور ابومحجن ثقفی وغیرہ سرداروں کو ہمراہ لے کر میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے، ساتھ ہی پل کے تیار کرنے کا حکم دیا اور تمام لشکر میں اعلان کرایا کہ میں ایرانی لشکر کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے