کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 402
توایک اور شخص نے اس کو پہچان کر گرفتار کر لیا اور سیّدنا ابوعبید بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس لایا کہ ایرانی سپہ سالار ہے، اس نے دھوکا دے کر امان حاصل کی تھی، سیّدنا ابوعبید رضی اللہ عنہ نے مطر بن فضہ کو بلا کر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے اس کو امان دی ہے، ابوعبید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ایک مسلمان نے اس کو امان دے دی ہے تو اب اس کے خلاف عمل درآمد کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہو سکتا، یہ کہہ کر جابان کو بہ حفاظت میدان جنگ سے رخصت کر دیا، جابان وہاں سے روانہ ہو کر اپنی مفرور فوج سے جا ملا اور یہ تمام فراری مقام کسکر میں نرسی کے پاس پہنچے۔ فتح کسکر: نرسی پیشتر سے تیس ہزار فوج لیے ہوئے کسکر میں مقیم تھا، اب جابان اور اس کی ہزیمت خوردہ فوج بھی اس کے پاس آگئی، دربار ایران کو جب جابان کی شکست کا حال معلوم ہوا تو رستم نے مدائن سے ایک عظیم الشان فوج جالینوس نامی سردار کی سرکردگی میں نرسی کی امداد کے لیے کسکر کی جانب روانہ کی، مگر سیّدنا ابوعبیدبن مسعود رضی اللہ عنہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے جالینوس کے پہنچنے سے پہلے ہی نشیبی کسکر کے مقام سقاطیہ میں نرسی کے ساتھ جنگ شروع کر دی، نرسی کے ساتھ شاہی خاندان کے دو اور ماتحت سردار تھے ان ایرانی شہزادوں نے قلب اور میمنہ و میسرہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر حملہ کیا، مسلمانوں کی فوج میں قلب لشکر کو سیّدنا ابوعبید رضی اللہ عنہ لیے ہوئے تھے، سیّدنا سعد بن عبید رضی اللہ عنہ میمنہ کے سردار تھے اور سیّدنا سلیط بن قیس رضی اللہ عنہ میسرہ کے، سیّدنا مثنیٰ مقدمۃ الجیش کے افسر تھے۔ نہایت زور شور کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی، مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لڑائی طول کھینچ رہی ہے تو انہوں نے اپنے دستے کو جدا کر کے اور چار کوس کا چکر کاٹ کر ایرانی فوج کے عقب میں پہنچ کر حملہ کیا، نرسی نے اس غیر مترقبہ حملہ کو روکنے کے لیے اپنی فوج کے ایک دستہ کو اس طرف متوجہ کیا، سیّدنا سعدبن عبید رضی اللہ عنہ نے ایک زبردست حملہ کیا اور خاص نرسی کے سر پر جا پہنچے، ابوعبید رضی اللہ عنہ بھی صفوں کو چیرتے اور درہم برہم کرتے ہوئے ایرانی لشکر کے سمندر میں شناوری کرنے لگے، یہ حالت دیکھ کر مسلمانوں نے نعرہ تکبیر کے ساتھ ایک زبردست حملہ کیا کہ ایرانی میدان کو خالی کرنے لگے، نرسی سعد بن عبید رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں نہ جم سکا اور جان بچا کر پیچھے ہٹا، نرسی کے بھاگتے ہی تمام لشکر بھاگ پڑا۔ سیدنا مثنیٰ نے مفرورین کا تعاقب کیا اور باقی لشکر نے قیدیوں کو سنبھال کر ایرانیوں کے خیموں اور بازاروں پر قبضہ کیا، اس کے بعد ابوعبید نے مثنیٰ ،عاصم اور سلیط رضی اللہ عنہم اجمعین کو فوجی دستے دے کر اردگرد کے ان مقامات کی طرف روانہ کیا جہاں ایرانی لشکر کے موجود ہونے کی خبر پہنچی تھی، ان سرداروں نے ہر