کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 401
پھر ملک عراق کے حالات بہت زیادہ پیچھے ہٹ کر شروع سے مطالعہ کرنے میں وہ لطف حاصل نہ ہو سکے گا جو شامی و عراقی معرکہ آرائیوں کی متوازی سیر اور تطابق زمانی کے صحیح تصور سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ابوعبید بن مسعود کا پہلا کارنامہ: اوپر ذکر آ چکا ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے پہلے ہی ہفتے میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ ، سعد بن عبید رضی اللہ عنہ ، سلیط بن قیس اور ابوعبید بن مسعود رضی اللہ عنہ کو عراق کی جانب روانہ کر دیا تھا، مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے تو باقی مذکورہ سرداروں کے ساتھ ہی روانہ ہوئے تھے، لیکن ابوعبیدبن مسعود رضی اللہ عنہ جو لشکر عراق کے سپہ سالار اعظم بنا کر بھیجے گئے تھے راستے کے عرب قبائل سے بھی لوگوں کو اپنے ہمراہ لیتے اور قیام کرتے ہوئے گئے، اس لیے وہ عراق میں مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ایک ماہ بعد پہنچے، مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے حیرہ میں پہنچ کر دیکھا کہ ایرانیوں نے تمام رؤساء عراق کو مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کر دیا ہے، ایران کے دربار مدائن میں خراسان کا گورنر رستم آکر قابو یافتہ ہو گیا ہے، اس نے فوجی تنظیم اور انتظامی سر رشتوں کو خوب مضبوط کر لینے کے علاوہ قبائل کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ کر لینے میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے ، سواد اور حیرہ کے مرزبان لڑائی کے لیے تلے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ مثنیٰ رضی اللہ عنہ کے پہنچنے پر رستم نے ایک زبردست فوج مثنیٰ کے مقابلہ کو روانہ کی، دوسری زبردست فوج شاہی خاندان کے ایک بہادر اور تجربہ کار سپہ سالار نرسی کے ماتحت مقام کسکر کی جانب بھیجی اور تیسرا عظیم الشان لشکر جابان نامی سردار کے ماتحت نشیبی فرات کی سمت روانہ کیا، جس نے مقام نمارق میں آکر چھاؤنی ڈال دی۔ سیدنا مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے حیرہ سے نکل کر مقام خفان میں قیام کیا، اتنے میں ابوعبید بن مسعود پہنچ گئے، انہوں نے تمام فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھ میں لے کر مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سواروں کی سرداری سپرد کر کے مقام خفان ہی میں چھوڑا اور خود مقام نمارق میں جابان پر حملہ آور ہوئے، بڑی خون ریز جنگ ہوئی، آخر ابوعبید رضی اللہ عنہ نے بذات خود اللہ اکبر کہہ کر لشکر ایران پر نہایت سخت حملہ کیا اور ان کی صفوں کو درہم برہم کر کے جمعیت کو منتشر کر دیا، مسلمانوں نے اپنے سپہ سالار کی اقتدا میں جی توڑ کر ایسے شیرا نہ و جواں مردانہ حملے کیے کہ ایرانی میدان خالی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ایرانی سپہ سالار جابان کو اسلامی لشکر کے ایک بہادر مطر بن فضہ ربیعی نے گرفتار کر لیا، جس کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ سپہ سالار ہے، جابان نے اس سے کہا کہ تم مجھ کو گرفتار کر کے کیا کرو گے، میں تم کو دو نہایت قیمتی غلام دوں گا، مجھ کو تم امان دے دو، مطر نے اس کو امان دے کر چھوڑ دیا، جب وہ چھوٹ کر چلا