کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 40
رکھتا ہے، لہٰذا عام انسان اپنی فطرت کے تقاضے سے مجبور ہیں کہ اس کے سامنے فرماں برداری کا اظہار کریں اور یہی فلسفہ ہے بادشاہت اور حکومت کا اور اسی سے وہ مقولہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بادشاہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے۔[1] یہ بات فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ بادشاہ یا فرماں روا نسبتی کامل ہے نہ کہ حقیقی، کیونکہ حقیقی کمال جس وجود میں پایا جائے گا وہ مطلق ہو گا نہ کہ محدود اور محیط ہو گا نہ کہ محاط اور منفرد ہو گا نہ کہ متعدد اوربانی ہو گا نہ فانی اور واجب ہو گا نہ ممکن وغیرہ اور اسی ذات وحدہ لاشریک کا نام خدائے تعالیٰ ہے جو ہر ایک نقص ہر ایک عیب اور ہر ایک برائی سے مبرا اور تمام صفات حسنہ کاملہ سے متصف ہے اور وہی حقیقی بادشاہ ، حقیقی نافذ الفرمان اور حقیقی حاکم ہے۔ غرض کہ انسان چونکہ ہر حالت میں اپنے آپ کو ناقص دیکھنے کی فطرت رکھتا ہے، اس لیے فرمانبردای اور اطاعت بھی اس کی فطرت ہوئی اور اسی فطرت کے خلاف کرنے سے حقیقی فرماں روانے اس کو روکا ہے جیسا کہ فرمایا ہے: ﴿اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں ۔‘‘ (النسا ء: ۴/۵۹)…) مجازی نافذ الفرمان یا بادشاہ وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کے مقابلہ میں کمال رکھتا ہو، پس ہر ایک صاحب کمال کا اپنے آپ سے نیچے درجہ والوں کو زیر فرمان دیکھنے کی توقع کرنا بھی ایک فطری تقاضا ہوا، لیکن چونکہ انسان میں اپنی فطرت کے خلاف کرنے اور اپنی قوتوں کو ترقی دینے کے بجائے تنزل کرنے کی بھی استعداد ہے، اس لیے ضروری تھا کہ ایسا بھی دیکھا جائے کہ ایک انسان جو ایک وقت میں دوسروں سے بہت ناقص اور پیچھے ہو جائے ، یا یہ کہ وہ ناقص یا پیچھے ہونے کی حالت میں اپنی فطرت کے خلاف اس چیز کی خواہش کرے، جو کسی طرح اس کا حق نہیں بلکہ ایک کامل کا ہے،یہی وجہ ہے کہ حکومتوں اور بادشاہوں کے سلسلہ میں ہمیشہ کشمکش اور تلاطم ہی نظر آتا ہے، نافذ الفرمان ہونے کی دو بڑی قسمیں ہیں ، ایک روحانی دوسری جسمانی، یا یوں کہے کہ ایک نبوت اور دوسری سلطنت۔ وہ کمالات جن کا سلطنت اور مادی حکومت سے تعلق ہے اور جو حکومت و فرمانبرداری کا موجب بنتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ، ان کا تذکرہ طالوت اور داؤد علیہ السلام کی بادشاہتوں کے ذکر میں اس طرح ہے کہ: ﴿وَ قَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا﴾(البقرۃ : ۲/۲۴۷) ’’ان کے نبی نے ان سے کہا کہ خدائے تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنایا ہے۔‘‘ بنی اسرائیل نے
[1] یعنی حکمران کی ذمہ داری ہے کہ وہ رعایا پر اللہ وحدہ لاشریک لہ کے احکام نافذ کرے اور جو مسلم حکمران ایسی ذمہ داری نبھائے، اسے شرعی اصطلاح میں خلیفہ کہتے ہیں ۔