کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 398
دیا اس کا مضمون اس طرح تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دمشق والوں کو یہ رعایتیں دی ہیں کہ جب اسلامی لشکر دمشق میں داخل ہو گا تو دمشق والوں کو امان دی جائے گی، ان کی جان و مال اور گرجوں پر کوئی تصرف نہ کیا جائے گا، نہ شہر دمشق کی شہر پناہ منہدم کی جائے گی، نہ کسی مکان کو مسمار و منہدم کیا جائے گا، اسلامی لشکر کا کوئی شخص شہر والوں کے کسی مکان میں سکونت اختیار نہ کرے گا، مسلمان اور ان کا خلیفہ بجز نیکی کے کوئی برا سلوک دمشق والوں سے نہ کریں گے جب تک کہ دمشق والے جزیہ ادا کرتے رہیں گے۔ ادھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ صلح نامہ کے ذریعے شہر میں داخل ہوئے، ٹھیک اسی وقت باقی ہرسہ جوانب سے اسلامی سردار سیڑھیاں لگا لگا کر اور دروازے توڑ توڑ کر قہر و غلبہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے، وسط شہر میں سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ اور سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی، سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے شہر کو بزور شمشیر فتح کیا ہے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بمصالحت شہر پر قبضہ کیا ہے، بعض روایات کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ بطریق ماہان نے خود امراء دمشق کو بھیج کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے عہد نامہ لکھوایا تھا، دراصل وہ مسلمانوں کے حملہ کی طاقت اور نتیجہ کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر مسلمان اپنے متفقہ حملے اور پوری کوشش میں ناکام رہے اور بزور شمشیر دمشق میں داخل نہ ہو سکے تو آئندہ بھی مدافعت کو جاری رکھا جائے گا اور خالد رضی اللہ عنہ کے عہد نامہ کو کوئی وقعت نہ دی جائے گی، لیکن اگر مسلمان اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئے اور زبردستی شہر میں داخل ہوئے تو اس عہد نامہ کے ذریعے اس برتاؤ سے محفوظ رہیں گے جو بزور شمشیر فتح کیے ہوئے شہر کے ساتھ آئین جنگ کے موافق کیا جاتا ہے۔ ادھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بزور شمشیر شہر میں داخل ہوئے اور ادھر دمشق والوں نے خود دروازہ کھول کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو شہر کے اندر بلا لیا، بہرحال کوئی بات ہوئی، یہ ضرور ہوا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بذریعہ مصالحت داخل دمشق ہوئے اور ابوعبیدہ بن جراح بزور شمشیر۔ وسط شہر میں جب دونوں سردار ملاقاتی ہوئے تو یہ مسئلہ در پیش ہوا کہ دمشق بزور شمشیر مفتوح سمجھا جائے یا بمصالحت، بعض شخصوں نے کہا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ چونکہ افواج اسلامی کے سپہ سالار اعظم نہ تھے، لہٰذا ان کا عہد نامہ جائز نہیں سمجھا جائے گا، ایسا عہد نامہ صرف ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ لکھ سکتے تھے، سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں مسلمانوں کا کوئی ایک معمولی سپاہی بھی جو عہد و اقرار کرلے گا وہ تمام مسلمانوں کو تسلیم کرنا پڑے گا، لہٰذا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا عہد نامہ جائز سمجھا جائے گا، اس پر یہ رائے پیش کی گئی کہ وسط شہرباب توما تک نصف شہر بذریعہ مصالحت مفتوح سمجھا جائے گا اور نصف شہر بذریعہ شمشیر