کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 397
کی خوب مضبوطی کر لی گئی اور فلسطین و حمص کی طرف سے بوقت ضرورت دمشق والوں کو مزید کمک بھیجنے کا مزید اہتمام بھی ہو گیا، افواج دمشق کا سپہ سالار اعظم ہرقل نے نسطاس بن نسطورس کو مقرر کیا اور ماہان نامی بطریق گورنر سپہ سالار پہلے سے وہاں موجود تھا، اسلامی لشکر ابھی یرموک ہی میں خیمہ زن تھا، سیّدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم کے حکم کے موافق لشکر عراق پر جو سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عراق سے آیا تھا، ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کر کے عراق کی جانب روانہ کر دیا، ایک دستہ فوج فحل کی جانب روانہ کیا، باقی فوج کے چند حصے کر کے ایک حصہ ذوالکلاع کی سرداری میں روانہ کیا تاکہ دمشق اور حمص کے درمیان مقیم رہ کر اس فوج کو جو ہرقل حمص سے دمشق والوں کی کمک کو روانہ کرے روکیں ، ایک حصہ کو فلسطین و دمشق کے درمیان متعین کیا کہ فلسطین کی طرف سے رومی فوجوں کو دمشق کی جانب نہ آنے دیں ، باقی فوج کو لے کر سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ خود دمشق کی جانب متوجہ ہوئے، دمشق پہنچنے سے پہلے مقام غوطہ کو فتح کیا، آخرم اہ رجب ۱۳ ھ میں اسلامی لشکر نے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ شہر میں کافی فوج تھی، لیکن رومیوں کی جرائت نہ ہوئی کہ میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے، انہوں نے شہر کی مضبوط فصیلوں اور اپنے سامان مدافعت کی پناہ لینی مناسب سمجھی، سیّدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ باب الجابیہ کی جانب خیمہ زن ہوئے، سیّدنا خالد بن ولید اور سیّدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ باب توما کی جانب اترے، سیّدنا شرجیل بن حسنہ فراویس کی جانب اور یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ باب صغیر و باب کیسان کی جانب فروکش ہوئے، اس طرح دمشق کے چاروں طرف اسلامی لشکر نے محاصرہ ڈال دیا، محصورین شہر کی فصیلوں پر چڑھ کر کبھی پتھروں کی بارش منجنیقوں کے ذریعہ کرتے، کبھی تیروں کا مینہ برساتے، مسلمان بھی ان کے جواب دینے میں کوتاہی نہ کرتے، اس طرح یہ محاصرہ ماہ رجب ۱۳ ھ سے ۱۶ محرم ۱۴ ھ تک چھ مہینے جاری رہا ہرقل نے حمص سے دمشق والوں کی کمک کے لیے جو فوجیں روانہ کیں ان کو ذوالکلاع نے دمشق تک نہ پہنچنے دیا، کیونکہ وہ اسی غرض کے لیے دمشق و حمص کے درمیان مقیم تھے، جب چھ مہینے گزر گئے تو دمشق والے ہرقل کی امداد سے مایوس ہو گئے اور ان میں مقابلہ کرنے کا جوش کم ہونے لگا تو سیّدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اس حالت سے بروقت مطلع ہو کر اور محاصرہ کو طول دینا مناسب نہ سمجھ کر ہر سمت کے سرداروں کو حکم دیا کہ کل شہر پر حملہ آوری شروع ہو گی۔ مسلمانوں کی اس جنگی تیاری اور حملہ آوری کا حال معلوم کر کے امراء دمشق کے ایک وفد نے باب تو ماکی جانب سے سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر امان طلب کی، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان کو امان نامہ لکھ دیا اور بلا مقابلہ شہر کے اندر داخل ہوئے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو امان نامہ دمشق والوں کو لکھ کر