کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 395
پر فخر کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی للہیت اور اطاعت اولی الامر کو فخریہ پیش کرتے ہیں ۔ بعض مؤرخین نے اپنی ایک یہ لطیف رائے بھی بیان کی ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو چونکہ ہر ایک معرکہ میں فتح و فیروزی حاصل ہوتی رہی تھی، لہٰذا لوگوں کے دلوں میں خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ تمام فتوحات خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری کے سبب مسلمانوں کو حاصل ہوئیں ، سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید کو معزول کر کے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی کامیابیاں اور فتح مندیاں کسی شخص سے وابستہ نہیں ہیں ، بلکہ مشیت ایزدی اور اسلام کی برکات ان فتوحات کا اصل سبب ہے، اس روایت کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جس طرح افواج شام کی سپہ سالاری میں تبدیلی فرمائی اسی طرح افواج عراق کی سپہ سالاری بھی سیّدنا مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے ابو عبیدہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ماتحت بنا دیا تھا۔آج بھی اگر مسلمان اسلام کی پیروی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نمونہ بن جائیں تو وہی کامیابیاں اور وہی فتح مندیاں جو قرون اولیٰ میں حاصل ہوئی تھیں پھر حاصل ہونے لگیں ۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جو قابل تذکرہ جنگی انتظامات کیے ان میں سب سے پہلا کام یہ تھا کہ سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو افواج شام کی اعلیٰ سپہ سالاری سے معزول کر کے سیّدنا ابوعبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کو ملک شام کی اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم بنایا، اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی اور سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں نہ صرف جان فروشی اور کافر کشی میں پہلے سے زیادہ مستعدی دکھلائی بلکہ سیّدنا ابوعبیدہ کو ہمیشہ مفید ترین جنگی مشورے دیتے رہے، یہی وہ امتیاز خاص ہے جو سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مرتبہ اور عزت کو تمام دنیا کی نگاہ میں بہت بلند کر دیتا اور ان کو روئے زمین کا بہترین سپہ سالار اور سچا پکا مخلص انسان ثابت کرتا ہے کہ جس کے دل میں رضائے الٰہی کے سوا شہرت طلبی اور ریا کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ دوسرا کام سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ انہوں نے ابوعبیدہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک فوج کے ساتھ عراق کی جانب روانہ کیا اور ان کو ملک عراق کی تمام اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا۔ تیسرا کام فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کو ملک یمن کی جانب روانہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آخری وصیت کو پورا کریں کہ ملک عرب میں مسلمانوں کے سوا کوئی یہودی اور کوئی نصرانی نہ رہنے پائے۔[1] چونکہ مسلمان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سوا دو برس دوسرے عظیم امور کی
[1] صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر، باب اجلاء الیھود من الحجاز۔