کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 394
لیکن خالد رضی اللہ عنہ کا کچھ ذکر نہیں کیا۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا حکم دیا وہ منشائے صدیقی کے خلاف نہ تھا اور یہ بھی کیسے ہو سکتا تھا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوتے ہی سب سے پہلا کام وہ کرتے جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے منشاء اور خواہش کے بالکل خلاف ہوتا، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا حال شروع کرتے ہوئے عام طور پر مؤرخین اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ سے صرف اس لیے جدا کر کے اپنے پاس رکھا تھا کہ امور خلافت میں ان کے مشورے سے امداد حاصل کریں اور خلافت صدیقی کے پورے زمانہ میں آخر وقت تک فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وزیر و مشیر رہے، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا کوئی کام ایسا نہ تھا جس میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے امتزاج و استصواب نہ کر لیا گیا ہو،دنیا میں بہت سے لوگ ظاہر بیں ہوا کرتے ہیں اور وہ اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بڑے بڑے آدمیوں سے ایسی ایسی باتوں کو منسوب کر دیتے ہیں جن کا ان بڑے آدمیوں سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا، سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بعض بے احتیاطیوں پر ضرور اظہار ناراضگی کیا لیکن یہ اظہار ناراضگی بس وہیں تک تھا جہاں تک شریعت اور ان کی تحقیق و اجتہاد کا تعلق تھا، اس اظہار ناراضگی کو عداوت و عناد کا درجہ ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا تھا، نہ ہوا، وہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جو اسیران بدر کی نسبت یہ آزادانہ حکم دے کہ جو جس کا عزیز رشتہ دار ہے، وہ اسی کے ہاتھ سے قتل کیا جائے، اس کی نسبت یہ رائے قائم کرنی کہ ان کو خالد رضی اللہ عنہ سے کوئی کدیا ذاتی عداوت تھی سراسر ظلم اور نہایت ہی رکیک و بیہودہ خیال ہے۔[1]
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے درحقیقت امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا احسان کیا، اور ایک ایسی نظیر پیدا کر دی کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور خدمت دینی کے مقابلہ میں اپنی ہستی کو ہیچ سمجھنے کی مثالوں میں سب سے پہلے ہم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہی کا نام لیتے ہیں ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اگر مرتے دم تک افواج اسلام کے سپہ سالار اعظم رہتے تب بھی ان کی بہادری اور جنگی قابلیت کے متعلق اس سے زیادہ کوئی شہرت نہ ہوتی جو آج موجود ہے، لیکن اس معزولی کے واقعہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عزت و عظمت میں ایک ایسے عظیم الشان مرتبہ کا اضافہ کر دیا ہے جس کے آگے ان کی سپہ گری و بہادری کے مرتبہ کی کوئی حقیقت نہیں ، ہم ایک طرف سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جنگی کارناموں
[1] یہ سبائی راویوں کا کیا دھرا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو آپس میں شفیق اور کافروں پر سخت تھے، ان کو آپس میں لڑاکا اور جھگڑالو ثابت کرنے کے لیے یہ خبیث جھوٹی روایات گھڑتے اور پھیلاتے رہے ہیں ۔