کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 392
بھی مدینہ میں ایسی مخالفت نہیں کی، کہ اس کا حال عام لوگوں کو معلوم ہوا ہو، اگر واقعی سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے لوگ مدینہ میں پہلے ہی دن ناخوش ہو گئے تھے تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، اس کا ذکر خاص الخاص طور پر مؤرخین کو لکھنا پڑتا اور اس ناراضی کے دور ہونے کے اسباب بھی بیان کرنے ضروری تھے، یہ ایک ایسا غلط خیال ہے کہ اصحاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بہت بڑی گستاخی لازم آتی ہے، وہ لوگ ایسے نہ تھے کہ کسی اختلاف رائے کی بنا پر ترغیب جہاد کی تحقیر کرتے، بات صرف یہ تھی کہ جہاد کے لیے سب تیار تھے، مگر ذمہ داری لینے یا بیڑا اٹھانے میں متامل اور ایک دوسرے کے منتظر تھے، ان میں ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ بزرگ اور مجھ سے زیادہ قابل عزت لوگ موجود ہیں وہ جواب دیں گے، اسی طرح ہر ایک شخص دوسرے کا منتظر تھا، بعض اوقات اس قسم کی گرہ بڑے بڑے مجمعوں میں لگ جایا کرتی ہے اور ہم اپنے زمانہ میں بھی اس قسم کی مثالیں دیکھتے رہتے ہیں ، یہ انسانی فطرت کا خاصہ معلوم ہوتا ہے، اسی لیے اعمال نیک اور خیرات و صدقات کے متعلق ایک طرف سے بچنے کے لیے چھپانے کی ترغیب ہے، تو دوسری طرف علانیہ بھی ان نیک کاموں کے کرنے کا حکم ہے، تاکہ دوسروں کو تحریص و جرائت ہو، اور خاموشی و رکاوٹ کی کوئی گرہ نہ لگنے پائے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اگر اپنی خلافت کے پہلے ہی دن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا حکم لکھا تھا تو جہاد کی ترغیب تو انہوں نے بیعت خلافت لینے کے بعد ہی پہلی تقریر اور پہلی ہی مجلس میں دی تھی، اس تقریر اور اس ترغیب کے بعد ہی انہوں نے سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان لکھوایا ہو گا، پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پہلی ترغیب کا جواب مجمع کی طرف سے کیوں نہ ملا؟ بات یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی استاد اپنے شاگردوں کو مدرسہ کے کمرہ میں حکم دیتا ہے کہ تختہ سیاہ کو کپڑے سے صاف کر دو یا نقشے کو لپیٹ دو، مگر اس کے حکم کی کوئی طالب علم تعمیل نہیں کرتا، اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ اس استاد کی تعمیل کو شاگرد ضروری نہیں سمجھتے بلکہ تعمیل نہ ہونے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ استاد نے سارے کے سارے شاگردوں کو مخاطب کر کے حکم دیا تھا، جب وہی استاد کسی ایک یا دو شاگردوں کا نام لے کر یہی حکم دیتا ہے تو فوراً اس کے حکم کی تعمیل ہو جاتی ہے۔ بہرحال لوگوں کے مجمع کا تین دن تک خاموش رہنا خواہ کسی سبب سے ہو مگر یہ سبب تو ہرگز نہ تھا کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کے حکم سے ناراض تھے کیونکہ خود مدینہ منورہ میں انصار رضی اللہ عنہ کی ایک بڑی جماعت ایسی موجود تھی جو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مالک بن نویرہ کے معاملہ میں قابل مواخذہ یقین کرتی تھی، اگر اور لوگ ناراض تھے تو وہ جماعت تو ضرور سیّدنا فاروق اعظم سے خوش ہو گی، ان لوگوں کو