کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 391
خلافت فاروقی کے اہم واقعات ۲۳ جمادی الثانی ۱۳ ھ بروز سہ شنبہ مدینہ منورہ میں تمام مسلمانوں نے بلا اختلاف سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ھ بروز دو شنبہ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے آنے اور حالات سنانے کے بعد سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بلا کر جو حکم دیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے:’’مجھے قوی امید ہے کہ میں آج ہی مر جاؤں گا، پس میرے مرنے کے بعد تم کل کا دن ختم کرنے سے پہلے پہلے مثنیٰ کے ساتھ لوگوں کو لڑائی پر روانہ کر دینا، تم کو کوئی مصیبت تمہارے دینی کام اور حکم الٰہی سے غافل نہ کرنے پائے، تم نے دیکھا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا کیا تھا حالانکہ وہ سب سے بڑی مصیبت تھی، جب اہل شام پر فتح حاصل ہو جائے تو اہل عراق کو عراق کی طرف واپس بھیج دینا، کیونکہ اہل عراق، عراق ہی کے کاموں کو خوب سرانجام دے سکتے ہیں اور عراق ہی میں ان کا دل خوب کھلا ہوا ہے۔‘‘ ان الفاظ سے ایک یہ حقیقت بھی خوب سمجھ میں آ جاتی ہے کہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ کیا دینی کام اور دینی مقصد کو مقدم سمجھ کر کیا، مرتے وقت بھی ان کو دینی کاموں ہی کی فکر تھی، اپنی اولاد و ازواج کے حق میں کوئی وصیت نہیں فرمائی، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بیعت خلافت لینے کے بعد لوگوں کوجہاد کی ترغیب دی، مہاجرین و انصار کو خاص طور پر مخاطب کر کے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے پکارا، مگر مجمع نے آمادگی اور جوش کا اظہار نہ کیا، تین دن تک سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کر کے جہاد کا وعظ سنایا مگر لوگوں کی طرف سے خاموشی رہی، چوتھے روز ابوعبیدہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے جہاد عراق کے لیے اپنی آمادگی ظاہر کی، ان کے بعد سعد بن عبید رضی اللہ عنہ انصاری کھڑے ہوئے، پھر سیّدنا سلیط بن قیس رضی اللہ عنہ اور اسی طرح بہت سے لوگ یکے بعد دیگرے آمادہ ہو گئے، اورایک لشکر عراق کے لیے تیار ہو گیا، سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کو جو سب سے پہلے آمادہ ہوئے تھے اس لشکر کا سردار بنا کر مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عراق کی جانب روانہ کیا۔ تین دن تک لوگوں کا خاموش رہنا مؤرخین کو خاص طور پر محسوس ہوا ہے اور انہوں نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی دن چونکہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان لکھ کر شام کے ملک کی طرف بھیجا تھا، لہٰذا لوگ ان سے ناخوش ہو گئے تھے اور اسی لیے ان کے آمادہ کرنے سے آمادہ نہیں ہوئے تھے، مگر یہ خیال سراسر غلط اور نا درست ہے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کی کسی نے