کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 39
اور فن اسماء الرجال وغیرہ کے مرتب و مدون ہونے کے عظیم الشان کام اور اہم ترین انتظام سے قطع نظر کی جائے تب بھی مسلمانوں میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں مؤرخ ایسے ملیں گے جن میں سے ہر ایک نے فن تاریخ کی تدوین میں وہ وہ کارہائے نمایاں کیے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے، تمدن کی کوئی شاخ اور معاشرت کا کوئی پہلو ایسا نہ ملے گا جس پر مسلمانوں نے تاریخیں مرتب نہ کی ہوں ، تاریخ کی جان اور روح رواں روایت کی صحت ہے اور اس کو مسلمانوں نے اس درجہ ملحوظ رکھا ہے کہ آج بھی مسلمانوں کے سوا کسی دوسری قوم کو بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری اقوام اور دوسرے ممالک کی تاریخیں مرتب کرنے میں بھی مسلمانوں کی طرف سے نہایت زبردست صلاحیتیں صرف کی گئی ہیں ۔ فن تاریخ کو علم کے درجہ تک پہنچانے کا کام مسلمانوں ہی کی نظر التفات کا رہین منت ہے اور اصول تاریخ کے بانی ابن خلدون کا نام دنیا میں ہمیشہ مؤرخین سے خراج تکریم وصول کرتا رہے گا۔ جب سے مسلمانوں پر تنزل و ادبار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اور مسلمان مورخین کی کوششوں میں وہ پہلی سی مستعدی اور تیز رفتاری کم ہو گئی ہے، ان کے شاگرد یعنی یورپی مؤرخین اس کمی کو ایک حد تک پورا کرنے میں مصروف ہیں ۔
تاریخ سلطنت:
انسان کو دوسرے حیوانات کے مقابلہ میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ دوسرے حیوانات اپنی طاقتوں میں محدود رکھے گئے ہیں اور پیدائشی طور پر ان کے حسب ضرورت محدود سامان بلا ان کی سعی و کوشش کے دے دیا گیا ہے، لیکن انسانوں کو موقع دیا گیا ہے کہ جس قدر سعی و کوشش کرے گا اسی قدر ترقی کا میدان اپنے سامنے وسیع پائے گا، اس مدعا کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ انسان ہر وقت سفر میں رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف انتقال کرتے رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، انسانوں میں جو انسان زیادہ سفر طے کر لیتا یا یوں کہئے کہ زیادہ بلندی پر پہنچ جاتا ہے وہ چونکہ اپنے سوا دوسرے ہم جنسوں کو پیچھے یا نیچے دیکھتا ہے، اس لیے اگرچہ وہ حقیقتاً کامل نہیں ہوتا لیکن نسبتاً کامل اور دوسرے اس کے مقابلہ میں ناقص رہتے ہیں اور چونکہ اس نسبتاً کامل کے لیے ہمیشہ ترقی کی گنجائش باقی ہے اس لیے وہ باوجود ایک نسبتی کمال کے اپنے آپ کو ناقص ہی پاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی فطرت میں عبودیت یعنی حقیقی واہب ترقیات کی فرمانبردای ودیعت کی گئی ہے ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ﴾(’’میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں ۔‘‘ (الذاریات : ۵۱/۵۶)…) جو انسان سب سے اوپر اور سب سے آگے نظر آتا ہے وہ چونکہ ایک مجازی اور نسبتی کمال