کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 389
ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب صالحین کا ذکر کرو تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہ بھول جاؤ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ ذہین پایا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر دنیا بھر کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا علم دوسرے پلڑے میں رکھ کر تولا جائے تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا پلڑا بھاری رہے گا۔ سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر کا علم سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی گود میں پڑا ہوا ہے، نیز یہ کہ کوئی شخص سوائے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایسا نہیں ہے جس نے جرائت کے ساتھ راہ اللہ تعالیٰ میں ملامت سنی ہو ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ اس کپڑے اوڑھے ہوئے شخص سے زیادہ مجھے کوئی عزیز نہیں ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ارادہ کی پختگی اور ہوش مندی و دلیری سے پر ہیں ۔ سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ان چار باتوں سے معلوم ہوتی ہے، اوّل اسیران جنگ بدر کے قتل کا حکم دیا اور اس کے بعد آیت ﴿لَوْ لَا کِتَابٌ مِّنَ اللّٰہِ﴾ (الانفال : ۸/۶۸) ’’اگر اللہ کا حکم پہلے نہ ہو چکا ہوتا تو…‘‘ نازل ہوئی، دوم آپ نے امہات المومنین کو پردہ کرنے کے لیے کہا اور پھر آیت پردہ نازل ہوئی۔ اسی پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ وحی تو ہمارے گھر میں اترتی ہے اور تم کو پہلے ہی القاء ہو جاتا ہے، سوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا کرنا الٰہی عمر رضی اللہ عنہ کو مسلمان کر کے اسلام کی مدد فرما، چہارم آپ کا اوّل ہی سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لینا۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ ہم اکثر یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شیطان قید میں رہے اور آپ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد آزاد ہو گئے۔ ابواسامہ نے کہا کہ تم جانتے بھی ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کون تھے۔ وہ اسلام کے لیے بمنزلہ ماں اور باپ کے تھے۔ سیّدنا جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو سیّدنا ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کو بھلائی سے یاد نہ کرے۔ حلیہ فاروقی: سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی رنگت سفید تھی، لیکن سرخی اس پر غالب تھی، قد نہایت لمبا تھا، پیادہ پا چلنے میں معلوم ہوتا تھا کہ سوار جا رہا ہے، رخساروں پر گوشت کم تھا، ڈاڑھی گھنی، مونچھیں بڑی، سر کے بال سامنے سے اڑ گئے تھے، ابن عساکر نے روایت کی ہے کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ دراز قد موٹے تازے تھے، رنگت میں سرخی غالب تھی، گال پچکے ہوئے، مونچھیں بڑی تھیں اور ان کے اطراف میں سرخی تھی، آپ کی والدہ شریفہ ابوجہل کی بہن تھیں ، اس رشتے سے آپ ابوجہل کو ماموں کہا کرتے تھے۔