کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 381
نوافل کو قبول نہیں فرماتا جب تک کہ فرائض ادا نہ کیے جائیں ۔ اے عمر رضی اللہ عنہ ! جن کے اعمال صالحہ قیامت میں وزنی ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے نیک اعمال کم ہوں گے وہ مبتلائے مصیبت ہوں گے، اے عمر! فلاح و نجات کی راہیں قرآن مجید پر عمل کرنے اور حق کی پیری سے میسر ہوتی ہیں ، اے عمر! کیاتم کو معلوم نہیں کہ ترغیب و ترہیب اور انذارو بشارت کی آیات قرآن مجید میں ساتھ ساتھ نازل ہوئی ہیں تاکہ مومن اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور اس سے اپنی مغفرت طلب کرتا رہے، اے عمر! جب قرآن مجید میں اہل نار کا ذکر آئے تو دعا کرو کہ الٰہی! تو مجھے ان میں شامل نہ کرنا، اور جب اہل جنت کا ذکر آئے تو دعا کرو کہ الٰہی! تو مجھے ان میں شامل کر، اے عمر! تم جب میری ان وصیتوں پر عمل کرو گے تو مجھے گویا اپنے پاس بیٹھا ہوا پاؤ گے۔‘‘
یہ تحریر اور وصیت وغیرہ کی کارروائی ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ھ بروز دو شنبہ عمل میں آئی، اسی روز دن کے دوسرے حصے میں یا۲۲ اور ۲۳ جمادی الثانی کی درمیانی شب میں جو شب سہ شنبہ تھی بعد مغرب بعمر ۶۳ سال آپ کا انتقال ہوا اور عشاء سے پہلے یا رات کے کسی وقت میں آپ دفن کر دیئے گئے، سوا دو سال آپ نے خلافت کی، مکہ کے عامل سیّدنا عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ نے بھی مکہ میں اسی روز انتقال کیا،جس روز ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے تحریر لکھوائی، اور مسلمانوں کو اس کی اطلاع دی، وہ صدیق اکبر کی زندگی کا آخری دن تھا۔
اسی روز بعد تکمیل تحریر سیّدنا مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو حیرہ (عراق) سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تھے مدینہ منورہ پہنچے، وہاں (عراق) کی یہ صورت پیش آئی تھی کہ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نصف فوج خود لے کر اور نصف مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے پاس چھوڑ کر شام کی طرف روانہ ہو گئے تو بہمن جادویہ ایرانی سپہ سالار یہ سمجھ کر کہ اب خالد بن ولید کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کا اس ملک سے نکال دینا آسان ہے ایک لشکر عظیم لے کر آیا،مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے حیرہ سے چل کر بابل کے قریب اس ایرانی لشکر کا استقبال کیا، جنگ عظیم برپا ہوئی بڑے کشت و خون کے بعد ایرانیوں کو شکست فاش نصیب ہوئی، مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے مدائن کے قریب تک ایرانیوں کا تعاقب کیا اور پھر واپس حیرہ میں چلے آئے۔
اس شکست کے بعد ایرانیوں نے اپنے اندرونی جھگڑوں کو ملتوی کر کے اور ایرانی سپہ سالاروں اور وزیروں نے اپنی رقابتوں کو فراموش کر کے از سر نو تیاریاں شروع کیں ، تمام ملک اور صوبوں میں زندگی جوش اور ہمت کی لہر دوڑ گئی ایرانی قبائل اور رؤسا ملک سب مسلمانوں کے خلاف میدان جنگ میں جانے اور لڑنے مرنے پر مستعد ہو گئے، سیّدنا مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے جب ایرانیوں کی جنگی سرگرمیوں کے حالات سنے، تو