کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 379
یرموک یقینا جمادی الثانی کی آخری تاریخوں میں ہوئی ہے، رومی لشکر کے یرموک میں آنے سے پہلے مسلمانوں نے بصریٰ وغیرہ مقامات فتح کیے تھے، وفات صدیقی تک فتح یرموک کی خبر مدینہ میں نہیں پہنچی تھی، یہ غیر ممکن تھا کہ فتح یرموک کی خبر دو ڈھائی مہینے تک مدینہ میں نہ پہنچتی۔ وفات صدیقی: شام کے ملک میں یرموک کی لڑائی نے قیصر ہرقل کو بدحواس بنا دیا تھا، جب یرموک کے بھاگے ہوئے سپاہی حمص میں ہرقل کے پاس جہاں وہ نتیجہ جنگ کا انتظار کر رہا تھا پہنچے ہیں تو وہ اپنے کئی لاکھ آہن پوش لشکر کا مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھ سے تہس نہس ہونا سن کر ششدر رہ گیا اور فوراً حمص سے روانہ ہو کر کسی دوسرے مقام کی طرف چل دیا، جاتے ہوئے یہ حکم دے گیا کہ دمشق اور حمص کو اچھی طرح قلعہ بند اور مضبوط کر لیا جائے، مسلمان یرموک سے بڑھ کر دمشق کا محاصرہ کر چکے تھے، شام کے ملک پر گویا مسلمان قابض و متصرف ہو ہی چکے تھے یا ہونے والے تھے، ہرقل کی کمر یرموک میں ٹوٹ چکی تھی اور اب بجائے اس کے رومی عرب کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ان کی نگاہوں میں خود اپنی موت و ہلاکت پھرنے لگی تھی، اسی طرح عراق کا زرخیز و وسیع حصہ مسلمانوں کے قبضہ و تصرف میں آ چکا تھا، اسلامی حکومت ملک عرب میں مستقل و پائیدار ہو کر ایران و روم کی سرحدوں کو پیچھے ہٹانے اور خود وسیع ہونے میں مصروف ہو چکی تھی۔ شروع ماہ جمادی الثانی ۱۳ ھ میں سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بعارضہ تپ مبتلا ہوئے، پندرہ روز برابر شدت کا بخار رہا، جب آپ کو یقین ہوا کہ وقت آخر آ پہنچا ہے، تو آپ نے سب سے پہلے سیّدنا عبدالرحمن بن عوف کو بلا کر خلافت کے متعلق مشورہ کیا، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ کی بابت تمہارا کیا خیال ہے، انہوں نے کہا کہ عمر کے مزاج میں سخت گیری زیادہ ہے، آپ نے فرمایا کہ عمر کی سختی کا سبب صرف یہ ہے کہ میں نرم طبیعت رکھتا تھا، میں نے خود اندازہ کر لیا ہے کہ جس معاملہ میں نرمی اختیار کرتا تھا اس میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سختی کی جانب مائل نظر آتی تھی،لیکن جن معاملات میں میں نے سختی سے کام لیا ہے ان میں عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ نرمی کا پہلو اختیار کرتے تھے، میرا خیال ہے کہ ان کو ضرور نرم دل اور معتدل بنا دے گی، اس کے بعد آپ نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلا کریہی سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے، اور ہم میں سے کوئی ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، پھر آپ نے سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کو بلا کر یہی سوال کیا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا جو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ دے چکے تھے، اس کے بعد سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، آپ نے ان کے