کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 378
دونوں طرف سے سخت حملہ شروع ہوا، اسلامی سرداروں کی حیرت انگیز بہادری نے باوجود مسلمانوں کی کمی کے کسی لشکری کے دل میں ہمت ہارنے اور بد دل ہونے کے خیال تک کو بھی نہیں آنے دیا، جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ عورتوں نے بھی جو اسلامی لشکر کے ساتھ تھیں ، لڑنے اور کفار کے قتل کرنے میں حصہ لیا، ابی سفیان رجز پڑھ پڑھ کر دلوں میں جوش اور لڑائی کی امنگ پیدا کر رہے تھے، سیّدنا عکرمہ نے بلند آواز سے کہا کہ کون ہے جو میرے ہاتھ پر موت کے لیے بیعت کرے، اسی وقت سیّدنا ضرار بن ازدر اور دوسرے چار سو آدمیوں نے بیعت کی کہ ہم یا تو شہید ہو جائیں گے یا فتح مند ہو کر میدان سے واپس آئیں گے، اس کے بعد یہ جماعت رومی لشکر میں بھوکے شیروں کی طرح گھس گئی، سیّدنا مقداد بلند آواز سے سورہ انفال کی تلاوت فرما کر غازیان اسلام کے دلوں میں شوق شہادت پیدا کر رہے تھے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ شرجیل بن حسنہ، یزید بن ابی سفیان، عکرمہ رضی اللہ عنہ ، قعقاع بن عمر رضی اللہ عنہ ، ابوسفیان رضی اللہ عنہ ابوداؤد رضی اللہ عنہ ، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ، حارث بن ضرار رضی اللہ عنہ اور جرجہ بن بوذیہ رضی اللہ عنہ وغیرہ بہادران اسلام نے وہ وہ کار ہائے نمایاں کیے کہ چشم فلک نے آج تک نہ دیکھے تھے، صبح سے شام تک شمشیر و خنجر اور تیروسنان کا استعمال بڑی تیزی اور سرگرمی سے جاری رہا، ظہر و عصر کی نمازیں غازیان اسلام نے محض اشاروں سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے پڑھیں ، دن ختم ہو گیا مگر لڑائی ختم نہ ہوئی۔ بالآخر رومی دن بھر کی صعوبت کشی سے افسردہ و مضمحل ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ پر نہ جم سکے، پیچھے ہٹے اور ہٹتے ہٹتے دامن کوہ میں پہنچے، لیکن مسلمان ان کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے اور دھکیلتے ہوئے گئے، جب پیچھے ہٹنے اور بھاگنے کی جگہ نہ ملی تو ادھر ادھر کو پھوٹ پھوٹ کر ان کا سیلاب نکلا، مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا، بہت سے پانی میں ڈوب کر ، بہت سے خندق میں گر کر ہلاک ہوئے، ایک لاکھ تیس ہزار رومی لقمہ اجل ہوئے، باقی اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے، ان مفرورین میں سوار زیادہ تھے، پیدل قریباً سب مارے گئے۔ لڑائی تمام دن اور تمام رات جاری رہ کر اگلے دن صبح کے وقت مسلمانوں کی فتح کی شکل میں ختم ہوئی، اور رومی سپاہیوں سے میدان بالکل خالی نظر آیا، رومیوں کا سپہ سالار اعظم تذارق برادر ہرقل بھی مارا گیا، اور بھی کئی سردار مارے گئے، مسلمانوں کے تین ہزار بہادر شہید ہوئے، ان تین ہزار میں جرجہ بن بوذیہ نو مسلم، عکرمہ بن ابی جہل، عمرو بن عکرمہ، سلمہ بن ہشام ، عمرو بن سعید، ابان بن سعید، ہشام بن العاصی، ہبار بن سفیان، طفیل بن عمرو وغیرہ شہداء رضی اللہ عنہم خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں ۔ جنگ یرموک ربیع الاول یا ربیع الثانی ۱۳ ھ میں بیان کی جاتی ہے، مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا، جنگ