کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 377
اس کو لکھا کہ میں ایک زبردست لشکر اور تمہاری کمک کے لیے روانہ کر رہا ہوں ، چنانچہ ماہان نامی سردار کو یرموک کی طرف روانہ کیا، اسلامی لشکر جو چشمہ یرموک کے اس طرف میدان میں پڑا ہوا تھا خود رومیوں پر اپنی قلت کے سبب حملہ نہ کر سکتا تھا، ادھر رومی جو ایک قدرتی حصار کے اندر محفوظ تھے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہونے میں پس و پیش کر رہے تھے۔ یرموک میں جب دونوں طرف کے لشکر جمع ہوئے ہیں تو صفر کا مہینہ تھا، انھی ایام میں یا دو چار روز بعد سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق سے اپنا دس ہزار لشکر لے کر یرموک کی جانب روانہ ہوئے، راستہ میں سیّدنا خالد بن ولید کو کئی جگہ دشمن قبائل اور دشمن رئیسوں کی فوجوں نے روکا ٹوکا، ہر جگہ خالد لڑتے دشمنوں کو مارتے بھگاتے اور سامنے سے ہٹاتے ہوئے ماہ ربیع الاول ۱۳ ھ میں یرموک پہنچ گئے، یرموک میں ہرقل کی طرف سے کئی سردار اور بطریق فوجی امداد کے ساتھ رومی لشکر میں آ آ کر شریک ہو چکے تھے، سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے اگرچہ معمولی چھیڑ چھاڑ دونوں لشکروں میں ہو جاتی تھی، مگر کوئی اہم قابل تذکرہ معرکہ ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ جنگ یرموک: سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک تجربہ کار سپہ سالار کی حیثیت سے تمام حالات کا معائنہ کیا، ایک رات ان کو محسوس ہوا کہ صبح رومی لشکر متفقہ طور پر حملہ آور ہو گا، انہوں نے رات ہی کے وقت تمام لشکر اسلام کو جس کی تعداد چالیس ہزار سے چھیالیس ہزار تک بیان کی گئی ہے بہت سے چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کر کے ہر ایک دستہ پر ایک ایک تجربہ کار بہادر شخص کو افسر مقرر کیا اور چیدہ چیدہ بہادروں کا ایک مختصر دستہ اپنی رفاقت کے لیے مخصوص کر کے نہایت عمدگی کے ساتھ ہر ایک افسر کو اس کے فرائض اور مناسب ہدایات سمجھا دیں ۔ رومی لشکر کی جانب سے اوّل چالیس ہزار سواروں کے ایک لشکر نے حملہ کیا، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے مٹھی بھر رفیقوں کے ساتھ آگے بڑھ کر اس لشکر کو بھگا دیا، اس کے بعد جرجہ بن بوذیہ رومی سردار آگے بڑھ کر آیا اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو کچھ باتیں کرنے کے لیے طلب کیا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے، اس نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اسلام کے متعلق کچھ سوالات کیے، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کو نہایت خوبی کے ساتھ اسلام کی حقیقت سمجھائی، وہ اسی وقت مسلمان ہو کر تنہا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اسلامی لشکر میں چلے آئے اور پھر مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو کر رومی لشکر پر حملہ آور ہوئے، اسی لڑائی میں جرجہ بن بوذیہ نہایت بہادری کے ساتھ لڑ کر شہید ہوئے۔